درسِ قرآن و حدیث

عاشورا  وماہ محرم کی فضیلت واہمیت قرآن وحدیث کے تناظر میں

مفتی قاضی فضل رسول مصباحی

دار العلوم اہل سنت قادریہ سراج العلوم برگدہی ،ضلع مہرا ج گنج یوپی۔

اسلامی سن کےاعتبار سےاللہ جلَّ شانہ نے سال کے بارہ  مہینوں کی کچھ خاص فضیلتیں اور ممتاز اہمیتیں ذکر فرماٸ ہیں،قرآن مجید میں اس سے متعلق ارشاد ربانی ہے۔

اللہ کےہاں اس کی کتاب میں مہینوں کی گنتی بارہ کی ہے ،اسی دن سےجب سے آسمان و زمین کو اس نے پیدا کیا ہے ۔ان میں سے چار حرمت وادب کے ہیں ۔یہی درست دین ہے۔تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو۔

اور ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،سال بارہ مہینوں کا ہے۔ان میں سےچار حرمت وادب کے ہیں۔تین مہینے،ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم لگا تار ہیں۔ رجب جو جمادیٰ الاخریٰ و شعبان کے درمیان ہے۔ ان میں خوں ریزی اور جدال وقتال قطعا بند کردیا جاتا تھا۔حج و عمرہ اور تجارتی معاملات کے لۓامن وامان کے ساتھ آزادی سے سفر کر سکتے تھے۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کسی شخص نے سوال کیا کہ ماہ رمضان المبارک کے بعد کون سے مہینہ کے میں روز ے رکھوں؟تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیاکہ یہی سوال ایک دفعہ ایک شخص نےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے بھی کیا تھااورمیں آپ کے پاس بیٹھاتھاتوآپ نےجواب دیاتھا،۔

یعنی ماہ رمضان کےبعد اگر تم کو روزہ رکھناہےتو ماہ محرم میں رکھو،کیوں کہ وہ اللہ تعالیٰ(کی خاص رحمت)کا مہینہ  ہے اس میں ایک ایسا دن ہےجس  میں اللہ تعالی نےایک قوم کی توبہ قبول فرماٸ اور آیندہ بھی  ایک قوم کی توبہ اس دن قبول فرماۓ گا۔۔نیز حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہےکہ  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔

یعنی ماہ رمضان المبارک کےروزوں کے بعد سب سے افضل روزہ ماہ محرم الحرام کا  ہے۔

اسی طرح ابن عباس رضی اللہ  تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔

یعنی جو شخص محرم کے ایک دن میں روزہ رکھے تو اس کو ہر دن کے روزہ کے بدلےتیس دن روزہ رکھنےکا ثواب ملے گا۔۔ان احادیث میں”شھر اللہ“سے اشارہ ملتا ہےکہ یہ اللہ تعالی کی خاص رحمتوں کا مہینہ ہے،اس ماہ کی اضافت اللہ کی طرف کرنےسےاس کی خصوصی عظمت وفضیلت ثابت ہوٸ ۔اس لیے اسے نیکیوں سے معمورو منور کرنا چاہیے اور خداوند قدوس سے یہ توقع رکھنی چاہیےکہ وہ ان روزوں کی برکت پورےسال رکھے گا
سور ہ توبہ کی درج بالا آیتوں اور احادیث نبویہ سے جہاں حرمت و ادب والے چار مہینو ں کی فضیلت ثابت ہوئی وہاں اسلامی کلینڈر کے پہلے ماہ، محرم الحرام کی اہمیت بھی ظاہر ہوئی۔اس اہمیت کی وجہ یہ بھی ہے کہ اسلامی سال کی ابتدا اسی ماہ مقدس سے ہوتی ہے۔اسی ماہ میں ایک مسعود و مبارک دن ”عاشورا “ کا بھی ہے،جس کی عظمت و فضیلت پراحادیث نبویہ شاہد عدل ہیں۔ان دلائل و شواہد کو ہم تھوڑا رک کر بیان کریں گے ۔ سردست ہم بیان کریں گےکہ یوم عاشورا ٕ کی آمد پر مسرت و شادمانی کا اظہار ، اورادو وظائف اور صوم و صلوٰة کا بکثرت اہتمام اس لیے کیا جاتاہے کہ یہ دن اللہ کی طرف سے انعام واکرام کا دن ہے۔ اور جس دن اللہ کی کوٸ نعمت ورحمت اپنے بندوں پر ہو وہ مسرت و شادمانی اور عید یعنی خوشی منانے کا دن ہوتاہے ۔ارشاد خداوندی ہے۔” و ذکر ھم بایام اللہ“
اور انھیں اللہ کے دن یاد دلاٶ۔
ظاہر ہے کہ ”عاشورا محرم”بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سےاس کےبندوں پر نعمت و رحمت کے نزول کا دن ہے۔کیوں کہ اس دن بہت سےانبیا ٕٕ کرام ومرسلین عظام پر اللہ کا عظیم انعام واکرام ہوا اور بتوسط حسنین کریمین شہادت کو حٕضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم بوس ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔اس کےعلاوہ جب بنی اسرائیلیوں کو اللہ تعالی نے فرعونیوں سےنجات دلائی اس دن سیدنا موسی ٰعلیہ السلام نےشکرانے کے طور پر روزہ رکھا ،آپ نے فرمایاکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہم تم سے زیادہ موافقت رکھنے کےحقدارہیں اس لۓ آپ نے خود بھی روزہ رکھااور صحابہ کرام کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا(بخاری ومسلم)۔اس حٕدیث سےبھی نعمت ورحمت پر خوشی منانے ، اور روزہ رکھنےکے حکم کا ثبوت ملتا ہے۔
یہ اور بات ہے کہ رمضان کےروزے سے یوم عاشورا کے روزہ کی فرضیت منسوخ ہو گئی،مگر استحبابیت وسنیت باقی رہی۔

عاشورا کی وجہ تسمیہ
علما اسے عاشورا اس لۓ کہتے ہیں کہ یہ محرم کا دسواں دن ہے۔ جب کہ بعض علما فرماتے ہیں کہ اس دن اللہ تعالیٰ نے دس انبیا کرام علیہ السلام کو دس اعزازات سے نوازا ۔
١۔۔حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی۔
٢۔۔حضرت ادریس علیہ السلام کو مقام اعلی کا رتبہ نصیب ہوا۔
٣۔۔حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی جودی پہاڑ پر ٹہری۔
٤۔۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ولادت اسی دن ہوئی۔اسی دن انھیں خلیل بنا یا گیا اور آگ سے نجات ملی۔
٥۔۔حضرت داٶد علیہ السلام کی توبہ بھی اسی دن قبول ہوئی۔
٦۔۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اسی دن آسمان پر اٹھایا گیا۔
٧۔۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اسی دن فرعون سےنجات ملی اورفرعون غرق ہوا۔
٨۔۔حضرت یونس علیہ السلام اسی دن مچھلی کےپیٹ سے باہر آئے۔
٩۔۔حضرت سلیمان علیہ السلام کو اسی دن باد شاہی ملی۔
١٠۔۔ایک روایت کے مطابق نبٸ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت بھی اسی دن ہوئی۔

عاشورا کے دن روزے کی فضیلت
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سےاس دن کی متعدد فضیلتیں وارد ہیں۔چنانچہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

میں نےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی فضیلت والےدن کےروزہ کا اھتمام بہت زیادہ کرتے نہیں دیکھا  سوائے اس دن یوم عاشورا کےاور سوائےاس ماہ یعنی ماہ رمضان المبارک کے۔مطلب یہ ہے  کہ  حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے آپ کے طرزعمل سے یہی سمجھا کہ نفل روزوں  میں جس قدر اھتمام آپ یوم عاشورا کے روزہ کا کرتےتھے اتنا کسی دوسرےنفلی روزہ کا نہیں کرتے تھے۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔

حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،مجھے امید ہے کہ عاشورا ٕ کے دن کا روزہ گذشتہ سال کے گنا ہوں کا کفارہ ہو جاۓگا۔(ابن ماجہ کی ایک روایت میں”السنة اللتی بعدھا“ کے الفاظ ہیں یعنی عاشورا ٕ کے دن کا رزہ آئی ندہ سال کے گناہوں کا کفارہ ہو جاۓ گا) ”کذا فی الترغیب ج٢ ۔ص١١٥“
ان احادیث شریفہ سے ظاہر ہے کہ یوم عاشورا ٕ بہت ہی عظمت و تقدس کا حامل ہے۔ لھٰذا ہمیں اس دن کی برکات سے بھر پور فیض اٹھانا چاہۓ۔
یوم عاشورا کے کام
احادیث طیبہ سے یوم عاشورا ٕمیں دو چیزیں خصو صیت سے ثابت ہیں ،اول۔روزہ،اس سلسلے میں روایات گذر چکی ہیں ،لیکن یہ بات یاد رکھنی چا ہۓ کہ احادیث میں نبٸ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار و مشرکین کی مشابہت اور یہود و نصاریٰ کی بودوباش اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے،اس حکم کے تحت چوں کہ تنہا یوم عاشورا کا روزہ رکھنا یہود یوں کے ساتھ اشتراک اور تشابہ تھا،۔دوسری طرف اس کو چھوڑ دینا،اس کی برکات سے محرومی کا سبب تھا۔ اس لۓ اللہ تعالیٰ کے مقدس پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ تعلیم دی کہ یوم عاشورا ٕ کے ساتھ ایک دن کاروزہ اور ملالو، بہتر تو یہ ہے کہ نویں اور دسویں تاریخ کا روزہ رکھو،اور اگر کسی وجہ سےنویں کا روزہ نہ رکھ سکو تو پھر دسویں کے ساتھ گیارھویں کا روزہ رکھ لو،تاکہ یہود کی مخالفت ہو جاۓاور ان کے ساتھ کسی بھی قسم کا تشابہ نہ رہے۔جیسا کہ حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےکہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم عاشورہ کا روزہ رکھا اور مسلمانوں کو بھی اس کا حکم دیا،توبعض صحابہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ!اس دن کو یہود و نصاریٰ بڑے دن کی حیثیت سے منا تے ہیں(تو کیا اس میں کوئی ایسی تبدیلی ہو سکتی ہے۔جس کےبعد یہ اشتراک اور تشابہ والی بات ختم ہوجائے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔

یعنی جب اگلا سال آۓگا تو ہم نویں کو بھی روزہ رکھیں گے ۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ اگلا سال آنے سے پہلےہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وصال فرما گۓ۔
دوم، اہل وعیال پر رزق میں فراخی:- شریعت اسلامیہ نےاس دن کےلۓدوسری تعلیم یہ دی کہ اس دن اپنے اہل وعیال پر کھانے،پینے میں وسعت اور فراخی کرنا اچھا ہے۔ کیوں کہ اس عمل کی برکت سے تمام سال اللہ تعالیٰ فراخٸ رزق کےدروازےکھول دیتا ہے۔چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔

یعنی جو شخص عاشورا کےدن اپنے اہل وعیال پر کھانے،پینےکےسلسلے میں فراخی اور وسعت کرےگاتو اللہ تعالیٰ پورےسال اس کےرزق میں وسعت فرماۓگا۔

کتابوں میں ذکرہےکہ یوم عاشورا ٕ کی فضیلت کوہر نبی کےدور میں برقرار رکھا گیاہے۔یہ دن نفل نمازوں،صدقہ خیرات،ذکرو استغفار،توبہ اور شکرکا ہے ۔تلاوت اور تسبیحات کے ورد کا ہے ۔کوشش کرنی چائیے کہ اس دن کو زیادہ سےزیادہ عبادت اور نفلی روزے کے ساتھ گزارا جاۓاور جو توفیق ہو نفل نمازیں ادا کی جائیں۔۔غربا ٕ یتامیٰ اور مسا کین نیز رشتہ داروں کےحقوق کا خیال رکھا جاۓ۔جس کا لین دین باقی ہو اسےجلد از جلد پورا کرکے اللہ کی رحمت کا طلب گار بننا چاہۓ ،اس دن سب کی توبہ قبول ہوتی ہے۔یہ دن زندگی میں باربار نہیں ملتے۔۔ لھٰذاعاشورا ٕکا دن ٕبازاروں میں گھوم کر ،ڈھول تاشوں میں ضائع نہیں کرنا چاہیے۔

حضرت امام حسین اور کربلا کی  نسبت سے بھی شہدا ٕ کا بلندمقام مفہوم ومحسوس ہے  کہ یوم عاشورہ ان کی شہادت کے وقوع کے لۓ مخصوص کیا گیا ،جس دن انبیا ٕکرام علیھم السلام کو نوزا گیاتو ان کی آل کو بھی اس دن نوازاگیا اس سے ان کی عظمتوں کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔امام حسین اور اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم سے محبت  فرض ہے۔جب قرآن کریم کی ”سورہ ٕشوریٰ“کی آیت:

نازل ہوئی جس کا مفہوم یہ ہے کہ اے نبی! آپ کہہ دیجیے کہ میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا مگر میرے رشتہ داروں سے محبت کرو توصحابہ کرام رضی اللہ عنہم نےعرض کیا،یارسول اللہ! آپ کےقرابت داروں میں کون ہیں جن سے محبت کرنا ہمارے لۓ واجب ہے تو آپ نے فرمایا،علی ، فاطمہ اور ان کے دو لڑ کے(حسن اور حسین)رضی اللہ عنہم۔
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی یہ قربانی در حقیقت اسلام کے بقاکی ضمانت تھی، کربلا کی پیاس ،بھوک،سجدے اورنیزو کی چھاؤں میں شہادت ،یہ سب کچھ ہمیں صبر ،استقامت،توکل اور دین پر قائم رہنے کا درس دیتے ہیں
لھٰذا۔ہمیں ان کی محبت ہروقت دل میں رکھنی چاہۓ۔اور ان کی سوانح حیات اور ارشادات کو پڑھ کر عمل ضرور کرنا چاہۓ۔ان کےنام سےایصال اورحصول فیوض و برکات کی محفل منعقدکرنی چاہۓتا کہ ہمارا دین بھی محفوظ رہے اور زندگی بھی کام یاب بنے۔
عاشورا کی رات کے نوافل
دورکعت نماز نفل اس طرح ادا کرےکہ ہر رکعت میں سورہ ٕفاتحہ کےبعد سورہ ٕاخلاص گیارہ بار پڑھے۔

admin@alnoortimes.in

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

درسِ قرآن و حدیث

قرآن کی اہمیت

احمد رضا قرآن پوری انسانیت کی ہدایت کے لیے خدانے اپنے پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل
درسِ قرآن و حدیث

قرآن مجید کے متعلق غیر مسلم خواتین کی انگلش میں لکھی جانے والی کتب

پروفیسر خورشید احمد سعیدی، اسلام آباد دنیا بھر میں قرآن مجید پر مختلف زاویوں سے تحقیق اور مطالعہ کرنے والوں