بموں کے بیچ امن کی کوشش

ایران اور اسرائیل کے درمیان شدید فوجی تصادم کے بعد امریکی صدر ٹرمپ کی ثالثی سے بارہ روزہ کشیدگی جنگ بندی پر ختم ہوئی، مگر امن اب بھی نازک توازن پر قائم ہے۔
13 جون کو جب اسرائیل نے ایران کے فوجی ٹھکانوں پر شدید حملے شروع کیے، تو مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی اچانک خطرناک حد تک بڑھ گئی۔ ایران نے فوری طور پر جوابی کارروائی کرتے ہوئے اسرائیل پر میزائل داغے، جو اس کی دفاعی نظام کو چیرتے ہوئے کئی اہداف تک پہنچے۔ صورتحال تب مزید گھمبیر ہوئی جب امریکہ نے ایران کے تین جوہری مراکز کو نشانہ بنایاجس سے عالمی سطح پر خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔ لیکن انہی لمحوں میں، ایک پیچیدہ سفارتی کھیل بھی پسِ پردہ جاری تھا، جس کا مقصد ایک بڑے پیمانے کی جنگ کو روکنا تھا۔میدان میں گونجتی گولہ باری کے شور سے پہلے ہی قطر میں موجود امریکی شہریوں کو الرٹ کر دیا گیا تھا۔ امریکی اور برطانوی حکومتوں نے اپنے شہریوں کو محفوظ جگہوں پر رہنے کی ہدایات جاری کیں۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ ایران قطر میں موجود امریکی فوجی اڈے کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ اسی دوران یہ بھی خبر آئی کہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای حملوں کے آغاز کے بعد کسی خفیہ بِنکر میں منتقل ہو چکے ہیں اور وہیں سے انھوں نے امریکی اہداف پر جوابی کارروائی کے احکامات دیے۔
قطر نے فضا میں خطرہ محسوس کرتے ہوئے اپنا فضائی علاقہ بند کر دیا اور دوحہ کے فضائی کنٹرول نے تمام پروازوں کو واپس بھیجنا شروع کیا۔ کچھ ہی دیر میں دوحہ کے آسمان پر میزائلوں کی گھن گرج سنائی دینے لگی۔ امریکی حکام نے تصدیق کی کہ ایران کی جانب سے میزائل لانچرز قطر کی طرف بڑھتے دیکھے گئے ہیں۔ جلد ہی دوحہ میں دھماکوں کی آوازیں سنائی دیں اور ایرانی انقلابی گارڈز نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ امریکی اڈے ان کی کمزوری ہیں، نہ کہ طاقت۔ قطر نے ان حملوں کو جارحیت قرار دیا، مگر ساتھ ہی اعلان کیا کہ زیادہ تر میزائلوں کو روک لیا گیا ہے اور کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ایران کے سرکاری میڈیا اور سوشل میڈیا پر بھی یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ ایران نے جواب دے دیا، لیکن کسی بڑی تباہی کا ارادہ نہیں تھا۔ خامنہ ای کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے ایک تصویر جاری ہوئی جس میں ایک جلتا ہوا امریکی پرچم دکھایا گیا، مگر ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ “ہم نے کسی کو نقصان نہیں پہنچایا۔” تجزیہ نگاروں کا کہنا تھا کہ یہ سب کچھ محدود پیمانے پر جان بوجھ کر کیا گیا تاکہ ایران اپنے عوام کو یہ باور کرا سکے کہ اس نے بدلہ لیا، لیکن ایسی شدت سے نہیں کہ معاملہ مکمل جنگ میں بدل جائے۔
اسی دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایرانی حملے کو “کمزور” اور “متوقع” قرار دیا۔ انھوں نے ایک نرم لہجے میں ایران کا شکریہ ادا کیا کہ حملے سے قبل انھیں اطلاع دے دی گئی تھی۔ ساتھ ہی انھوں نے اسرائیل اور ایران دونوں کو امن کی جانب قدم بڑھانے کا مشورہ دیا۔ یہ الفاظ اس وقت حیران کن لگے، جب چند ہی روز پہلے انہی ٹرمپ نے ایران پر شدید حملے کا حکم دیا تھا۔ اب وہ دونوں ممالک کے رہنماؤں کو امن کا پیغام دے رہے تھے۔پتہ یہ چلا کہ اس دوران امریکہ، اسرائیل، ایران اور قطر کے درمیان خفیہ سطح پر مذاکرات ہو رہے تھے۔ صدر ٹرمپ نے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو سے براہ راست بات کی اور انھیں واضح پیغام دیا کہ اب جنگ ختم ہونی چاہیے۔ امریکی نائب صدر جے ڈی وینس اور مشرقِ وسطیٰ کے لیے امریکی نمائندہ خصوصی سٹیو وٹکاف ایران سے رابطے میں تھے اور تمام فریقین کو جنگ بندی پر آمادہ کرنے کی کوششیں ہو رہی تھیں۔ صدر ٹرمپ کی اولین ترجیح یہی تھی کہ مکمل جنگ سے بچا جائے۔
ان کوششوں کے نتیجے میں بالآخر صبح گیارہ بجے صدر ٹرمپ نے اعلان کیا کہ ایران اور اسرائیل مکمل جنگ بندی پر راضی ہو گئے ہیں، جو چھ گھنٹے بعد نافذ العمل ہو گی۔ انھوں نے اس مختصر لیکن شدید لڑائی کو “بارہ دن کی جنگ” کہا۔ تاہم جنگ بندی کے اعلان سے پہلے دونوں جانب سے آخری بار بھرپور حملے کیے گئے۔ اسرائیل میں ایک رہائشی عمارت میزائل سے تباہ ہوئی اور چار افراد جاں بحق ہو گئے، جب کہ اسرائیلی فضائی حملے میں ایران کا ایک نامور نیوکلیئر سائنسدان مارا گیا۔ایران نے الزام لگایا کہ اسرائیل جنگ بندی سے پہلے آخری لمحے میں بڑی کارروائی کر کے صورتحال کو بگاڑنا چاہتا ہے۔ اسی دوران اسرائیل نے الزام عائد کیا کہ ایران نے جنگ بندی کے دوران میزائل داغے، جس پر اسرائیلی وزیر دفاع نے تہران پر حملے کا حکم دے دیا۔ اب ایک بار پھر محسوس ہونے لگا کہ امن کا خواب چکنا چور ہو سکتا ہے۔
اسی لمحے صدر ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر پیغام دیا: “یہ بم مت گراؤ! اگر ایسا کیا گیا تو یہ جنگ بندی کی سنگین خلاف ورزی ہو گی۔” جب یہ بات طے ہو چکی تھی کہ اسرائیلی لڑاکا طیارے تہران کی طرف بڑھ رہے ہیں، ٹرمپ نے نیتن یاہو کو فون کر کے فوری طور پر پائلٹوں کو واپس بلانے کی ہدایت کی۔ وائٹ ہاؤس کے ذرائع کے مطابق، یہ کال بہت سخت اور صاف الفاظ پر مشتمل تھی اور نیتن یاہو نے ٹرمپ کی سنجیدگی کو سمجھا۔اگلی صبح جب صدر ٹرمپ وائٹ ہاؤس کے لان میں صحافیوں سے مخاطب ہوئے، تو انھوں نے واضح کیا کہ جنگ بندی اب بھی مؤثر ہے اگرچہ دونوں فریقین نے اس کی خلاف ورزی کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایک ایرانی راکٹ شاید غلطی سے مقررہ وقت کے بعد فائر ہو گیا، جو ہدف پر نہیں گرا۔ انھوں نے اس بات پر ناراضی ظاہر کی کہ اسرائیل نے جنگ بندی کے آغاز کے فوراً بعد حملہ کیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ وہ ایران سے بھی مطمئن نہیں ہیں۔
بعد ازاں، وہ نیٹو اجلاس کے لیے روانہ ہوئے اور ہالینڈ جاتے ہوئے طیارے سے دوبارہ نیتن یاہو سے رابطہ کیا۔ ذرائع کے مطابق صدر ٹرمپ نے اسرائیلی وزیر اعظم کو متنبہ کیا کہ اگر جنگ بندی ٹوٹی تو اس کے سنگین نتائج ہو سکتے ہیں۔ نیتن یاہو نے جنگ بندی برقرار رکھنے کی یقین دہانی کرائی۔یوں، ایک ممکنہ عالمی جنگ کے دہانے سے واپس آ کر تمام فریقین نے جنگ بندی کو قبول کیا۔ اگرچہ تناؤ باقی ہے اور خطے میں بے چینی موجود ہے، لیکن اس مرحلے پر ٹرمپ کی براہ راست مداخلت اور پسِ پردہ سفارت کاری نے ایک بڑے بحران کو وقتی طور پر ٹال دیا۔