یوپی میں 5000 اسکول بند، نئی بھرتی خطرے میں

یوپی میں 50 سے کم طلبہ والے 5000 سرکاری اسکولوں کے انضمام کی تیاری، اساتذہ کی تنظیموں نے بھرتی رکنے اور تعلیم متاثر ہونے پر احتجاج شروع کر دیا۔
اتر پردیش حکومت نے اسکولی نظام تعلیم میں بڑی تبدیلی کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے ایسے 5000 سے زائد سرکاری اسکولوں کے انضمام کی تیاری شروع کر دی ہے، جو آٹھویں جماعت تک چل رہے ہیں اور جہاں طلبہ کی تعداد پچاس سے کم ہے۔ اس سلسلے میں محکمہ تعلیم کے اعلیٰ افسران کی جانب سے حالیہ دنوں میں ایک حکم نامہ جاری کیا گیا، جس کے منظر عام پر آتے ہی ریاست بھر میں اس فیصلے کی مخالفت شروع ہو گئی ہے۔ریاست میں اس وقت پرائمری اور اپر پرائمری اسکولوں کی تعداد تقریباً 1.32 لاکھ ہے۔ حکومت ان میں سے کمزور انرولمنٹ والے اداروں کو آپس میں ضم کرنے جا رہی ہے۔ اس انضمام کے پیچھے دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ کم بچوں والے اسکولوں کو اکٹھا کر کے ایک بہتر تعلیمی ماحول فراہم کیا جائے گا اور تعلیمی وسائل کا مؤثر استعمال ممکن ہوگا۔
اسی پالیسی کے تحت ہر ضلع میں “وزیر اعلیٰ ابھُدیہ کمپوزٹ اسکول” کھولے جائیں گے، جن میں اسمارٹ کلاس، کمپیوٹر روم، لائبریری، ٹوائلٹ، مڈ ڈے میل کچن، وائی فائی اور دیگر سہولیات دستیاب ہوں گی۔صرف لکھنؤ میں 445 اسکولوں کا انضمام متوقع ہے۔ ان اسکولوں کے بچوں کو نزدیکی اداروں میں منتقل کیا جائے گا۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اسکول بند نہیں کیے جائیں گے، بلکہ ان کی نوعیت اور استعمال میں تبدیلی لائی جائے گی، جیسے کہ ان میں آنگن واڑی، بچوں کے کھیل کود یا دیگر غیر رسمی سرگرمیاں جاری رکھی جائیں گی۔
دوسری طرف، اساتذہ کی تنظیموں نے اس فیصلے پر شدید اعتراض کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ قدم “تعلیم کا حق” جیسے قوانین کی خلاف ورزی ہے اور طلبہ کے مستقبل کے ساتھ ناانصافی ہے۔ کچھ رہنماؤں نے اسے تعلیم کے شعبے کی نجکاری کی جانب قدم قرار دیا ہے اور حکومت سے فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے، بصورت دیگر عدالتی راستہ اختیار کرنے کی دھمکی دی ہے۔اساتذہ کی نئی بھرتی کے حوالے سے بھی تشویش بڑھ گئی ہے۔ رواں سال تقریباً 65,000 نئے اساتذہ کی تقرری متوقع تھی، لیکن اسکولوں کے انضمام کے بعد خدشہ ہے کہ پہلے سے موجود اساتذہ کو خالی آسامیوں پر تعینات کر دیا جائے گا، جس سے نئی بھرتی کے امکانات کمزور پڑ سکتے ہیں۔