خبرنامہ

ٹرمپ کا کریک ڈاؤن،لاس اینجلس میدانِ جنگ بن گیا

امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر لاس اینجلس میں امیگریشن اور بارڈر انفورسمنٹ کے خلاف پُرتشدد مظاہرے شدت اختیار کر گئے ہیں۔ حالات اس قدر خراب ہو چکے ہیں کہ شہر کی میئر کرن باس کو بعض علاقوں میں کرفیو نافذ کرنا پڑا ہے تاکہ لوٹ مار اور تشدد کو روکا جا سکے۔ ان مظاہروں کی وجہ وہ کریک ڈاؤن ہے جو امیگریشن حکام غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف کر رہے ہیں۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ یہ کارروائیاں غیر انسانی ہیں اور ہزاروں خاندانوں کو تباہ کر رہی ہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد امیگریشن سے متعلق اقدامات میں سختی آئی ہے۔ ان کی حکومت کا دعویٰ ہے کہ لاس اینجلس جیسے شہروں میں لاکھوں غیر قانونی مہاجرین، خصوصاً لاطینی امریکہ سے تعلق رکھنے والے افراد، رہائش پذیر ہیں جنھیں ملک سے نکالنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ٹرمپ کی سخت گیر پالیسیوں کا مرکز یہی شہر کیوں بنا؟ اس کا جواب شہر کی آبادیاتی ساخت میں پوشیدہ ہے۔
لاس اینجلس کاؤنٹی تقریباً 4,000 مربع میل پر پھیلا ہوا ہے، جہاں تقریباً ایک کروڑ افراد رہتے ہیں۔ ان میں سے ایک تہائی افراد غیر ملکی نژاد ہیں۔ صرف لاس اینجلس شہر کی بات کی جائے تو وہاں تقریباً 39 لاکھ افراد رہتے ہیں، جن میں سے 35 فیصد امریکا سے باہر پیدا ہوئے تھے۔ ایک تحقیق کے مطابق، شہر میں 9 لاکھ کے قریب افراد ایسے ہیں جن کے پاس قانونی کاغذات موجود نہیں اور وہ ایک دہائی یا اس سے زائد عرصے سے امریکا میں مقیم ہیں۔ اندازہ ہے کہ ہر پانچ میں سے ایک شخص ایسے گھرانے کا حصہ ہے جس میں کم از کم ایک فرد غیر قانونی حیثیت میں ہے۔


یہ شہر نسلی و ثقافتی اعتبار سے انتہائی متنوع ہے۔ لاکھوں افراد ہسپانوی، ایشیائی یا دیگر نسلی اقلیتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہاں کی اکثریتی آبادی گھروں میں انگریزی کے علاوہ دیگر زبانیں، خاص طور پر ہسپانوی بولتی ہے۔ یہی تنوع ٹرمپ کی امیگریشن پالیسیوں کے خلاف حساسیت کو بڑھا دیتا ہے اور اس کا ردعمل شہری سطح پر شدت کے ساتھ نظر آتا ہے۔مظاہروں کا آغاز اس وقت ہوا جب امیگریشن حکام نے شہر کے لاطینی اکثریتی علاقوں میں چھاپے مارے اور درجنوں افراد کو حراست میں لیا۔ ان کارروائیوں کے بعد شہریوں نے سڑکوں پر نکل کر نعرے بازی کی، پولیس پر انڈے پھینکے، جس کے جواب میں پولیس نے مرچوں کے اسپرے اور ربڑ کی گولیاں استعمال کیں۔ مظاہرے تیزی سے شہر کے دیگر حصوں میں پھیل گئے ہیں اور پانچ دن سے مسلسل جاری ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ نے حالات قابو میں رکھنے کے لیے 700 میرینز اور 4,000 نیشنل گارڈز تعینات کیے ہیں، جس سے مظاہروں میں مزید شدت آ گئی ہے۔ ڈیموکریٹک رہنماؤں نے اس فیصلے کو آمریت سے تعبیر کیا ہے۔ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ وہ روزانہ کم از کم 3,000 غیر قانونی مہاجرین کو گرفتار کر کے ملک بدر کرنے کا ہدف رکھتے ہیں اور وہ میکسیکو سرحد کو بند کرنے کے وعدے پر بھی قائم ہیں۔

یہ صورت حال صرف امیگریشن کا معاملہ نہیں رہی، بلکہ شہری حقوق، نسلی مساوات اور حکومتی طاقت کے استعمال سے متعلق ایک بڑی بحث کا مرکز بن چکی ہے، جس کا اثر پورے امریکا پر پڑ سکتا ہے۔

admin@alnoortimes.in

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

خبرنامہ

لاس اینجلس میں جنگل کی آگ سے بڑے پیمانے پر تباہی، اموات کی تعداد 24ہوئی، امدادی کوششیں جاری

امریکہ کی ریاست کیلی فورنیا کے شہر لا اینجلس میں ایک ہفتے سے لگی بھیانک آگ مزید 8 جانیں نگل
خبرنامہ

چین کبھی بھی امریکہ کو پیچھے نہیں چھوڑ سکتا

واشنگٹن(ایجنسیاں) صدر بائیڈن نے پیر کو خارجہ پالیسی پر اپنی آخری تقریر میں بڑا دعویٰ کیا۔ انھوں نے اپنی تقریر