مجھے حماس سے نہیں،اسرائیلی بموں سے ڈر لگتا تھا۔ایک یرغمالی کاانکشاف

سابق اسرائیلی یرغمالی نعاما لیوی نے انکشاف کیا کہ غزہ میں قید کے دوران سب سے زیادہ خوف اسرائیلی بمباری سے تھا، نہ کہ حماس سے۔
تل ابیب میں منعقدہ ایک احتجاجی اجتماع کے دوران ایک سابق اسرائیلی فوجی اور یرغمالی نعاما لیوی نے غزہ میں اپنی اسیری کے کربناک تجربات بیان کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ قید کے دوران سب سے بڑا خوف انھیں دشمن نہیں بلکہ اپنے ہی ملک کے فضائی حملوں سے تھا۔نعاما لیوی ان پانچ اسرائیلی خاتون فوجیوں میں شامل تھیں جنھیں رواں سال کے آغاز میں ایک عارضی جنگ بندی کے نتیجے میں رہا کیا گیا۔ اپنے خطاب میں انھوں نے کہا کہ جب اسرائیلی طیارے بمباری کرتے، تو وہ اور دیگر یرغمالی مسلسل موت کے خوف میں مبتلا رہتے۔
انھوں نے بتایا کہ ہر فضائی حملے سے قبل ایک سنسنان سی سیٹی کی آواز آتی، جس کے بعد ایک زوردار دھماکا ہوتا جو ان کے حواس مفلوج کر دیتا۔ ان کا کہنا تھا، “میں دیوار سے لپٹ کر دعائیں کرتی تھی کہ یہ بم مجھ پر نہ گرے۔”
ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے لیوی نے بتایا کہ ایک مرتبہ بمباری کے دوران وہ مکان، جہاں وہ قید تھیں، جزوی طور پر منہدم ہو گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ “یہ میرا روزمرہ کا خوف بن چکا تھا اور یہی اب بھی باقی قیدیوں کی حقیقت ہے۔”
انھوں نے مزید کہا کہ کئی یرغمالی آج بھی اسی کیفیت میں زندہ ہیں، جو ہر لمحہ فضائی حملوں کی آوازوں سے لرزاں رہتے ہیں۔ ان کے پاس نہ تو پناہ کی جگہ ہے اور نہ ہی فرار کا راستہ۔ صرف ایک دیوار ہے، جس سے لپٹ کر وہ زندگی کی دعا کرتے ہیں۔نعاما کے ان بیانات نے اسرائیلی معاشرے میں ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے، جہاں یرغمالیوں کے اہل خانہ وزیر اعظم نیتن یاہو سے غزہ کی جنگ ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ کچھ دیگر سابق یرغمالیوں نے بھی اس سے پہلے اسی نوعیت کے خدشات ظاہر کیے تھے کہ انھیں اصل خطرہ حماس سے نہیں، بلکہ اسرائیلی کارروائیوں سے تھا۔