فلسطین حامی تحریکوں کو دبانے کا امریکی منصوبہ سامنے آ گیا

امریکی تھنک ٹینک ہیریٹیج فاؤنڈیشن نے “پروجیکٹ ایستھر” کے تحت فلسطین حامی تحریکوں کو دبانے کی مہم شروع کی ہے، جس میں تعلیمی اداروں، ویزوں اور فنڈنگ پر پابندیاں شامل ہیں۔
امریکہ کے مشہور قدامت پسند تھنک ٹینک دی ہیریٹیج فاؤنڈیشن کی جانب سے ایک ایسے منصوبے پر کام کیا جا رہا ہے جس کا مقصد فلسطین کے حق میں آواز بلند کرنے والی تحریکوں کو دبانا ہے۔ اس منصوبے کو “پروجیکٹ ایستھر” کا نام دیا گیا ہے اور اس کا دائرہ کار تعلیمی اداروں سے لے کر سیاسی ایوانوں تک پھیلا ہوا ہے۔ذرائع کے مطابق، اس منصوبے کے تحت فلسطینی کاز سے ہمدردی رکھنے والے کورسز کو نصاب سے ہٹانے، حامی اساتذہ کو برطرف کرنے، اور احتجاج میں شریک غیر ملکی طلبہ کے ویزے منسوخ کرنے جیسے اقدامات شامل ہیں۔ حتیٰ کہ بعض اداروں کی فنڈنگ روکنے کی بھی کوششیں کی جا رہی ہیں، جنہیں اسرائیل مخالف سمجھا جاتا ہے۔
یہ منصوبہ فلسطینی حمایت کو بسا اوقات “دہشت گردی کی معاونت” سے جوڑ کر قانونی کارروائی کا جواز فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے، جس میں جلاوطنی، جرمانے اور قید جیسی سزائیں بھی شامل ہو سکتی ہیں۔دی ہیریٹیج فاؤنڈیشن کی نائب صدر وکٹوریہ کوٹس کا کہنا ہے کہ اُن کی ٹیم جلد اور مؤثر اقدامات کرے گی تاکہ صورتحال پر قابو پایا جا سکے، اور ان کے بقول، دو برس کے اندر تمام اہداف حاصل کر لیے جائیں گے۔
رپورٹس کے مطابق، سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی ممکنہ واپسی کے تناظر میں اس منصوبے پر پہلے ہی کئی نکات پر عمل شروع کیا جا چکا ہے، جن میں احتجاج کرنے والے بین الاقوامی طلبہ کے ویزوں کی منسوخی اور یونیورسٹیوں کی مالی امداد روکنے کی کوششیں شامل ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ “پروجیکٹ ایستھر” یہود مخالف جذبات کے خاتمے کے دعوے کے ساتھ سامنے آیا ہے، لیکن خود کئی یہودی تنظیموں نے اس کی مخالفت کی ہے۔ معروف تنظیم جیوش وائس فار پیس کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر اسٹیفنی فاکس نے اس منصوبے کو آمرانہ طرزِ حکمرانی سے تشبیہ دیتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔