خبرنامہ

بھارت کی سڑکیں: ہر تین منٹ میں ایک جان، قانون شکنی کا قہر

بھارت جو دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے، وہاں سڑکوں پر سفر کرنا روز بروز ایک خطرناک تجربہ بنتا جا رہا ہے۔ اگرچہ ٹریفک قوانین موجود ہیں اور ان کی خلاف ورزی پر چالان جیسے جرمانے بھی عائد کیے جاتے ہیں، لیکن پھر بھی لوگ ان قوانین کو سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ Cars24 کے ایک حالیہ سروے سے پتا چلا ہے کہ بھارت میں ہر ساتواں گاڑی رکھنے والا شخص کم از کم ایک بار ٹریفک قانون کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا ہے۔ صرف 2024 کے دوران آٹھ کروڑ لوگوں کو چالان جاری کیے گئے، جن میں سے 55 فیصد کار، ٹرک جیسی چار پہیہ گاڑیوں کے تھے اور 45 فیصد موٹرسائیکل، اسکوٹر جیسی دو پہیہ گاڑیوں کے۔
ملک میں تقریباً آٹھ کروڑ لوگوں کے پاس کاریں ہیں، جن میں سے ہر دوسری کار پر کم از کم ایک بار چالان کٹا ہے۔ دو پہیہ گاڑیوں کی تعداد 35 کروڑ کے قریب ہے اور ان میں سے ہر دس میں سے ایک نے قانون توڑا۔ اگر تمام چالانوں کی ادائیگی ہو جائے تو حکومت کو بارہ ہزار کروڑ روپے ملنے چاہئیں، لیکن اصل میں صرف تین ہزار کروڑ کی رقم وصول ہوئی۔ نو ہزار کروڑ روپے کے چالان یا تو ادا نہیں کیے گئے یا جان بوجھ کر نظر انداز کر دیے گئے۔یہ اعداد و شمار نہ صرف قانون شکنی کو ظاہر کرتے ہیں بلکہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ بھارت کی سڑکیں کیوں خطرناک سمجھی جاتی ہیں۔ ہریانہ میں ایک ٹرک ڈرائیور کو صرف اوور اسپیڈنگ کے لیے دو لاکھ روپے سے زیادہ کے چالان جاری کیے گئے۔ بنگلورو میں ایک دو پہیہ گاڑی والے نے 500 بار قانون توڑا اور اس پر تین لاکھ روپے کے چالان ہوئے۔ گڑگاؤں میں روزانہ چار ہزار پانچ سو چالان کٹتے ہیں، اور نوئیڈا میں صرف ایک مہینے میں ہیلمٹ نہ پہننے پر تین لاکھ روپے کے چالان ہوئے۔
سروے میں یہ بھی سامنے آیا کہ سب سے زیادہ خلاف ورزی گاڑی کی رفتار سے متعلق ہوتی ہے۔ چالانوں میں 49 فیصد رفتار کی حد سے تجاوز پر، 19 فیصد ہیلمٹ یا سیٹ بیلٹ نہ پہننے پر، 18 فیصد ریڈ لائٹ توڑنے یا غلط سمت چلنے پر، اور 14 فیصد غلط پارکنگ پر کیے گئے۔ لوگوں سے جب یہ پوچھا گیا کہ اگر وہ سڑک پر ٹریفک پولیس کو دیکھیں تو ان کا کیا رویہ ہوگا، تو 12.9 فیصد نے کہا کہ وہ پولیس دیکھ کر راستہ بدل لیتے ہیں یا رفتار کم کر لیتے ہیں۔ 34.6 فیصد افراد نے کہا کہ وہ صرف پولیس دیکھ کر بھی گاڑی کی رفتار کم کر لیتے ہیں، چاہے وہ پہلے سے رفتار کی حد میں ہوں۔ 51.3 فیصد لوگوں نے کہا کہ وہ نہ صرف رفتار کم کرتے ہیں بلکہ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ وہ تمام قوانین کی پاسداری کریں۔
CCTV کی موجودگی پر بھی لوگوں کے ردعمل مختلف تھے۔ 47 فیصد نے کہا کہ کیمرے ہوں یا نہ ہوں، وہ اپنی ڈرائیونگ میں کوئی فرق نہیں لاتے۔ 36.8 فیصد نے اعتراف کیا کہ وہ کیمرے دیکھ کر رفتار کم کرتے ہیں اور 15.3 فیصد صرف اسپیڈ کیمرا دیکھ کر احتیاط کرتے ہیں۔ لوگوں کے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کے پیچھے نفسیاتی وجوہات بھی سامنے آئیں۔ کچھ لوگ چالان کو معمولی زحمت سمجھتے ہیں۔ 20.4 فیصد افراد نے کہا کہ اگر جرمانہ دگنا بھی ہو جائے تو وہ پھر بھی قوانین توڑنے کا خطرہ مول لیں گے۔ 14.2 فیصد افراد قانون توڑنے پر پکڑے جانے کے بعد بھی بچ نکلنے کی راہیں ڈھونڈتے ہیں۔
سروے میں رشوت خوری کے رجحان کو بھی اجاگر کیا گیا۔ 38.5 فیصد لوگوں نے اعتراف کیا کہ وہ ایک سے زیادہ بار ٹریفک پولیس کو رشوت دے چکے ہیں، جب کہ 15.9 فیصد نے کہا کہ وہ اکثر ایسا کرتے ہیں۔ صرف 29.2 فیصد نے کہا کہ وہ قانون توڑنے پر باقاعدہ جرمانہ ادا کرتے ہیں۔بین الاقوامی سطح پر بھارت ڈرائیونگ کے لحاظ سے 53 ممالک میں 49ویں نمبر پر ہے، یعنی سب سے خطرناک ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ جنوبی افریقہ، امریکہ، تھائی لینڈ اور ارجنٹینا بھارت سے بھی زیادہ خطرناک سمجھے گئے۔ ناروے، ہنگری، جاپان، آئس لینڈ اور اسٹونیا سب سے محفوظ ممالک میں شمار ہوئے۔
سڑکوں پر جان لیوا حادثات بھارت کے لیے ایک سنجیدہ مسئلہ بن چکے ہیں۔ سال 2023 میں ملک میں 4.8 لاکھ سڑک حادثات ہوئے، جن میں 1.72 لاکھ لوگ ہلاک ہوئے۔ یعنی ہر دن 474 افراد سڑک پر اپنی جان گنوا رہے ہیں۔ 2024 میں یہ تعداد مزید بڑھ کر 1.8 لاکھ ہو گئی ہے۔ ان میں 75 فیصد سے زیادہ اموات تیز رفتاری کی وجہ سے ہوئیں، جبکہ کچھ اموات غلط سمت میں گاڑی چلانے، نشے کی حالت میں ڈرائیونگ، سیٹ بیلٹ یا ہیلمٹ نہ پہننے، اور اوور لوڈنگ کی وجہ سے ہوئیں۔
خاص طور پر نیشنل ہائی وے، جو ملک کے صرف 2.1 فیصد حصے پر مشتمل ہے، سب سے زیادہ حادثات کا گڑھ ہے۔ اگر ریاستوں کی بات کریں تو سب سے زیادہ اموات اتر پردیش، تمل ناڈو اور مہاراشٹر میں ہوئیں، جب کہ فی 100 حادثات میں سب سے زیادہ اموات میزورم میں ہوئیں۔ سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ سڑک حادثات میں مرنے والوں کی بڑی تعداد 45 سال سے کم عمر افراد پر مشتمل ہوتی ہے، جو عموماً اپنے خاندان کے کفیل ہوتے ہیں۔ اس لیے ہر موت صرف ایک جان کا نقصان نہیں بلکہ ایک پورے خاندان کی معیشت اور جذباتی توازن کا ٹوٹ جانا ہے۔
سڑک حادثات کے باعث ملک کی جی ڈی پی کو تقریباً 3 فیصد کا نقصان ہوتا ہے۔ یہ صرف اقتصادی نقصان نہیں، بلکہ ذہنی، سماجی اور جذباتی نقصان بھی ہے جس کا کوئی حساب نہیں لگایا جا سکتا۔ حکومت نے مارچ 2024 سے جرمانے بڑھا دیے ہیں اور قوانین کو سخت کیا ہے، لیکن اصل مسئلہ عوام کے رویے کا ہے۔ جب تک لوگ خود قوانین کی پاسداری کو اپنی ذمہ داری نہیں سمجھیں گے، تب تک نہ قانون بدلنے سے کوئی فائدہ ہوگا، نہ چالان بڑھانے سے، اور نہ ہی کیمرے لگانے سے۔ اصل تبدیلی تب ہی ممکن ہے جب ہم اپنی اور دوسروں کی جان کی قدر کرنا سیکھیں گے۔

admin@alnoortimes.in

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

خبرنامہ

لاس اینجلس میں جنگل کی آگ سے بڑے پیمانے پر تباہی، اموات کی تعداد 24ہوئی، امدادی کوششیں جاری

امریکہ کی ریاست کیلی فورنیا کے شہر لا اینجلس میں ایک ہفتے سے لگی بھیانک آگ مزید 8 جانیں نگل
خبرنامہ

چین کبھی بھی امریکہ کو پیچھے نہیں چھوڑ سکتا

واشنگٹن(ایجنسیاں) صدر بائیڈن نے پیر کو خارجہ پالیسی پر اپنی آخری تقریر میں بڑا دعویٰ کیا۔ انھوں نے اپنی تقریر