گنجریا ریلوے اسٹیشن کی بقا:عوامی شعوراور یوٹی ایس ایپ کے استعمال سے ممکن

گنجریا اسٹیشن کی بقا عوام کے ہاتھ میں ہے؛ UTS ایپ سے وقتاً فوقتاً ٹکٹ بنا کر اس کا وجود برقرار رکھیں، کیوں کہ ہر ٹکٹ اس کے حق میں ایک ووٹ ہے۔
گنجریا (اتر دیناج پور): وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی مقامی سہولیات کے تحفظ کے لیے خود میدان میں آئیں۔ گنجریا ریلوے اسٹیشن، جو کہ نہ صرف علاقائی آمد و رفت کا ایک اہم ذریعہ ہے بلکہ کئی دیہی آبادیوں کی ریلوے سے واحد جُڑی کڑی بھی ہے، ان دنوں حکام کی بے توجہی اور مسافروں کی غفلت کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔مگر اس کی بقا کا ایک سادہ اور آزمودہ نسخہ پیش کیا جا رہا ہے: جب بھی وقت میسر ہو، گنجریا بازار میں بیٹھ کر UTS (Unreserved Ticketing System) موبائل ایپ کے ذریعے گنجریا ٹو کشنگنج یا گنجریا ٹو الوا باڑی تک کا ٹکٹ بنا لیا کریں۔
یہ بات محض نظریہ نہیں، بلکہ اتر پردیش کے ایک چھوٹے سے اسٹیشن کی مثال ہمارے سامنے ہے، جہاں مقامی عوام نے باقاعدگی سے ٹکٹ بنوانا شروع کیا، چاہے سفر کریں یا نہ کریں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ریلوے حکام کو اسٹیشن کی افادیت کا احساس ہوا، اور اسے بند کرنے کا فیصلہ واپس لے لیا گیا۔
مامی قائد اور محلہ سرکار پٹی، گنجریا کے باشندہ پروفیسر محمد شہباز عالم مصباحی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا:
“اگر ہم چاہیں کہ گنجریا اسٹیشن برقرار رہے، تو ہمیں عملی طور پر اس کا ثبوت دینا ہوگا۔ روزمرہ کے استعمال میں نہ سہی، کبھی کبھار بھی ٹکٹ بنانا ریلوے کے اعداد و شمار میں اسٹیشن کی سرگرمی دکھاتا ہے۔”
ماہرین کے مطابق، ریلوے کی پالیسی میں اب یہ دیکھا جاتا ہے کہ کون سا اسٹیشن کتنا استعمال ہو رہا ہے، اور وہی اسٹیشن ترقی یا تنزلی کی طرف بڑھتا ہے۔
گنجریا اسٹیشن کی بقا اب عوامی شعور اور ذمے داری پر منحصر ہے۔ ہر ٹکٹ، چاہے ۱۰ روپے کا ہو یا ۲۰ کا، اس اسٹیشن کے لیے ایک ووٹ کی حیثیت رکھتا ہے۔ آئیں، ہم سب مل کر اس ریلوے اسٹیشن کو بچائیں، جو ہمارے سفر، ہمارے سماج اور ہماری شناخت کا حصہ ہے۔