روس اور چین کی دوستی: مضبوط اتحاد یا وقتی مفاد؟

روس اور چین کی دوستی بظاہر مضبوط نظر آتی ہے، لیکن عالمی سیاست، معاشی مفادات اور یوکرین جنگ کے پس منظر میں یہ رشتہ محتاط حکمتِ عملی اور مسابقت سے بھرپور ہے۔
حال ہی میں ماسکو میں دوسری عالمی جنگ کے اختتام کی یاد میں ہونے والی تقریب کے دوران روسی صدر ولادیمیر پوتن اور چینی صدر شی جن پنگ کو ایک دوسرے کے ساتھ دوستانہ انداز میں کھڑے دیکھا گیا۔ دونوں ملکوں کی افواج نے ایک ساتھ پریڈ میں حصہ لیااور شی جن پنگ پوتن کے ساتھ دائیں جانب کھڑے تھے، جس سے یہ تاثر ابھرا کہ چین روس کا ایک قریبی اور مضبوط اتحادی ہے۔چینی صدر نے اس موقع پر روس کے ساتھ تعلقات کو “ناقابل تسخیر” قرار دیا اور دونوں ملکوں کو “آہنی دوست” کہا۔ یہ شی جن پنگ کا 2013 میں صدارت سنبھالنے کے بعد روس کا گیارہواں دورہ تھا اور دونوں رہنما اب تک چالیس سے زائد بار ملاقات کر چکے ہیں۔ پوتن بھی رواں سال کے آخر میں چین کے دورے کا ارادہ رکھتے ہیں۔لیکن یہ قریبی تعلق جتنا سادہ نظر آتا ہے، حقیقت میں اتنا ہی پیچیدہ ہے۔
بین الاقوامی امور کے ماہر میتھیو بولون کے مطابق، یہ دونوں رہنما ایک وقت میں دوست بنے دکھائی دیتے ہیں تو کبھی ایک دوسرے کے مقابل بھی ہوتے ہیں، کیوں کہ ان کے تعلقات میں دوستی کے ساتھ مسابقت بھی موجود ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمیں محض علامتی چیزوں پر نہیں جانا چاہیے بلکہ اصل تعلقات کی گہرائی کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔چین محتاط حکمتِ عملی اپنائے ہوئے ہے۔ یوکرین پر حملے کے بعد روس کی عالمی ساکھ متاثر ہوئی ہے، اور بیجنگ یہ نہیں چاہتا کہ روس کے ساتھ قریبی تعلقات اس کے دیگر عالمی شراکت داروں کو ناراض کر دیں، خاص طور پر ایسے وقت میں جب امریکہ کے ساتھ اس کے تعلقات کشیدہ ہیں۔
چین نے حالیہ برسوں میں یورپ کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوششیں تیز کر دی ہیں، خاص طور پر اس وقت سے جب امریکہ میں ٹرمپ صدر بنے تھے۔ چین نے خود کو ایک مستحکم عالمی شراکت دار کے طور پر پیش کیا ہے، ایک ایسی امریکی قیادت کے مقابلے میں جس کے فیصلے اکثر غیر متوقع ہوتے ہیں۔اسی تناظر میں، یورپی یونین کی قیادت نے چین کے ساتھ سفارتی تعلقات کے 50 برس مکمل ہونے پر خیرسگالی کے پیغامات کا تبادلہ کیا، جو بیجنگ کے لیے ایک مثبت اشارہ ہے۔تاہم، چین اور یورپ کے درمیان شراکت داری کی راہ میں بیجنگ اور ماسکو کی قربت ایک رکاوٹ ہے۔ چین نے اب تک روس کی یوکرین پر جارحیت کی براہِ راست مذمت نہیں کی، بلکہ محض “بحران کے خاتمے” کی بات کی ہے۔ یورپی رہنماؤں کے لیے یہ تشویش کا باعث ہو سکتا ہے، خاص طور پر اگر شی جن پنگ اور پوتن بہت زیادہ قریب دکھائی دیتے ہیں۔
ٹرمپ کی سابقہ پالیسیوں کے تناظر میں یہ سوال بھی اٹھا کہ امریکہ کیا چین اور روس کے درمیان دراڑ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے؟ لیکن صدر شی واضح کر چکے ہیں کہ ان کی دوستی اتنی آسانی سے متاثر نہیں ہو سکتی۔ انھوں نے روسی میڈیا میں شائع ایک مضمون میں لکھا کہ دونوں ممالک کسی بھی بیرونی مداخلت کو مل کر ناکام بنائیں گے۔روس اور چین مشترکہ طور پر ایک متبادل عالمی نظام کی بات کرتے ہیں جو امریکی بالادستی کے مقابل ہو۔ لیکن اس تعلق میں توازن نہیں ہے۔ چین عالمی طاقت بن چکا ہے، جبکہ روس کو یوکرین جنگ کے بعد معاشی اور عسکری محاذ پر نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ مغربی پابندیوں نے روس کو چین پر مزید انحصار کرنے پر مجبور کر دیا ہے
ماہرین کہتے ہیں کہ فی الحال روس کو چین کی زیادہ ضرورت ہے۔ بظاہر مسکراہٹوں اور اتحاد کے بیانات کے باوجود، دونوں ممالک کے تعلقات میں ایسے بیج بوئے جا چکے ہیں جو مستقبل میں اختلافات کو جنم دے سکتے ہیں۔