وقف بل 2025: سپریم کورٹ نے سماعت 15 مئی تک ملتوی کی

سپریم کورٹ نے وقف (ترمیمی) بل 2025 پر سماعت 15 مئی تک ملتوی کر دی، حساس نوعیت کے باعث فیصلہ نئی چیف جسٹس کی سربراہی میں ہوگا، جب کہ بل پر ملک گیر احتجاج جاری ہے۔
نئی دہلی۔ سپریم کورٹ آف انڈیا نے وقف (ترمیمی) بل 2025 کے خلاف دائر مختلف درخواستوں پر آئندہ سماعت کی تاریخ 15 مئی مقرر کی ہے۔ موجودہ چیف جسٹس سنجیو کھنہ، جو 13 مئی کو سبکدوش ہو رہے ہیں، نے کہا کہ وہ اپنی ریٹائرمنٹ سے قبل اس حساس معاملے پر کوئی عبوری فیصلہ دینا مناسب نہیں سمجھتے، لہٰذا یہ مقدمہ چیف جسٹس نامزد جسٹس بی آر گوائی کی سربراہی میں نئی بینچ کو سونپ دیا جائے گا۔آج کی سماعت کے دوران جسٹس کھنہ نے تسلیم کیا کہ انھوں نے فریقین کی جانب سے پیش کردہ مواد کا مطالعہ کیا ہے، تاہم گہرائی سے جائزہ ممکن نہیں ہو سکا۔ سماعت میں درخواست گزاروں کی نمائندگی سینئر وکلاء کپل سبل اور اے ایم سنگھوی نے کی، جب کہ مرکزی حکومت کی طرف سے سالیسٹر جنرل تشار مہتا پیش ہوئے۔ تمام فریقین نے عدالت کی تجویز سے اتفاق کیا۔
درخواست گزاروں نے بل کی کئی دفعات کو چیلنج کیا ہے، جن میں ‘وقف بائی یوزر’ کے تصور کا خاتمہ، وقف بورڈز میں غیر مسلم ارکان کی شمولیت، وقف املاک کی رجسٹریشن کے لیے پانچ سالہ عملی مسلمان ہونے کی شرط، ‘وقف علٰی الاولاد’ کی حیثیت کو کمزور کرنا، اور آثارِ قدیمہ سے محفوظ مقامات پر وقف کے قیام پر پابندی جیسے نکات شامل ہیں۔قبل ازیں، عدالت نے یہ عبوری ہدایت جاری کی تھی کہ جب تک کوئی حتمی فیصلہ نہ آ جائے، کسی بھی وقف جائیداد — چاہے وہ ‘یوزر’ کے تحت ہو یا کسی اور صورت میں — کو کالعدم نہ قرار دیا جائے۔
ادھر، ملک بھر میں اس بل کی مخالفت میں مسلم تنظیموں اور کئی سیکولر گروہوں کی جانب سے احتجاجی تحریکیں جاری ہیں۔ ان تنظیموں کا کہنا ہے کہ حکومت اس قانون کے ذریعے وقف املاک پر قبضہ جمانے کی راہ ہموار کرنا چاہتی ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، جمعیت علمائے ہند، جماعت اسلامی ہند، اور دیگر گروہوں کی جانب سے دستخطی مہم اور مظاہرے جاری ہیں، جن میں بل کو فوری واپس لینے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔واضح رہے کہ بل کو لوک سبھا میں طویل بحث کے بعد اکثریتی ووٹوں سے منظوری دی گئی تھی، جب کہ راجیہ سبھا میں بھی اسے کامیابی حاصل ہوئی، اگرچہ دونوں ایوانوں میں اپوزیشن نے سخت مخالفت کی۔اب تمام نظریں 15 مئی کی سماعت پر جمی ہوئی ہیں، جہاں نئی چیف جسٹس کی سربراہی میں یہ معاملہ دوبارہ زیرِ بحث آئے گا۔