قطر کا اسرائیل پر الزامات کا سخت جواب: ثالثی پر سوال ناقابلِ قبول

قطر نے اسرائیل کے اس الزام کو مسترد کر دیا کہ وہ جنگ بندی میں دہرا کردار ادا کر رہا ہے، کہتے ہیں یرغمالیوں کی رہائی اسی کی ثالثی سے ممکن ہوئی، الزام بے بنیاد اور اشتعال انگیز ہے۔
قطر نے اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نتن یاہو کے ان الزامات کو سختی سے مسترد کیا ہے جن میں ثالثی کے کردار کے دوران “دہرا رویہ” اختیار کرنے کی بات کہی گئی تھی۔ اسرائیلی قیادت نے یہ بیان ایسے وقت میں دیا جب دو طرفہ جنگ بندی مذاکرات میں پیش رفت سست روی کا شکار ہے۔قطری وزارت خارجہ کے ترجمان نے اسرائیل کے الزام کو اشتعال انگیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسی بے بنیاد باتیں ثالثی کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہیں۔ قطر کا کہنا ہے کہ اس کی کوششوں ہی کے نتیجے میں ماضی میں درجنوں یرغمالیوں کی رہائی ممکن ہو سکی، جس سے ثالثی کی سنجیدہ نوعیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
قطر نے اسرائیل کے ان دعوؤں کو بھی مسترد کیا ہے کہ وہ ’مہذب دنیا‘ کی نمائندگی کرتا ہے۔ قطری ترجمان نے کہا کہ غزہ میں جاری کارروائیوں کو تہذیب کے دفاع کے طور پر پیش کرنا تاریخ میں انہی قوتوں کی یاد دلاتا ہے جنہوں نے معصوم شہریوں کے خلاف جرائم کو جائز قرار دینے کے لیے حقائق کو مسخ کیا۔
قطر نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ کیا اب تک جو یرغمالی رہا ہوئے، وہ فوجی طاقت سے آزاد کرائے گئے یا پھر انہی ثالثی کی کوششوں کے ذریعے جن پر اب تنقید کی جا رہی ہے؟ ترجمان نے کہا کہ قطر بین الاقوامی قانون، انسانی حقوق اور امن کی کوششوں کے لیے اپنا کردار ادا کرتا رہے گا اور جھوٹے پروپیگنڈے یا سیاسی دباؤ کے سامنے جھکنے والا نہیں۔یہ الزامات ایسے موقع پر سامنے آئے جب قطر نے بین الاقوامی عدالت میں اسرائیل پر فلسطینیوں کے خلاف سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام لگایا، جب کہ اسرائیل کا مؤقف ہے کہ وہ اپنے دفاع اور “حق کی جنگ” لڑ رہا ہے۔
دوسری جانب اطلاعات ہیں کہ اسرائیل اپنی فوجی تیاریوں میں اضافہ کر رہا ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق، حکومت کی جانب سے بعض اہم غیر ملکی دورے ملتوی کر دیے گئے ہیں تاکہ غزہ میں کسی ممکنہ بڑے فوجی آپریشن کے لیے مکمل تیاری کی جا سکے۔ ہزاروں ریزرو فوجیوں کو طلب کیا جا چکا ہے، جنھیں شمالی سرحد اور مغربی کنارے پر تعینات کیا جائے گا تاکہ وہاں کے ریگولر دستے غزہ میں متحرک ہو سکیں۔