غزہ صحافیوں کے لیے جان لیوا خطہ بن چکا، عالمی اداروں کی شدید تشویش

غزہ میں اسرائیلی حملوں کے دوران 200 سے زائد صحافی جاں بحق ہو چکے ہیں، جن میں سے اکثر کو مبینہ طور پر نشانہ بنا کر قتل کیا گیا، جو ممکنہ طور پر جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔
عالمی سطح پر میڈیا کی آزادی اور صحافیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم اداروں نے کہا ہے کہ اسرائیل کی غزہ پر جاری فوجی کارروائیاں صحافیوں کے لیے نہایت مہلک ثابت ہو رہی ہیں اور اب یہ علاقہ ان کے لیے دنیا کی خطرناک ترین جگہوں میں شمار ہوتا ہے۔صحافتی آزادی کے عالمی دن کے موقع پر جاری کردہ تازہ ترین رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پچھلے ڈیڑھ سال کے دوران غزہ میں قریب 200 صحافی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، جن میں سے درجنوں اس وقت شہید ہوئے جب وہ پیشہ ورانہ ذمہ داریاں انجام دے رہے تھے۔ “رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز” جیسے بین الاقوامی ادارے نے نشاندہی کی ہے کہ مقامی صحافیوں کے لیے نہ تو کوئی محفوظ ٹھکانہ باقی بچا ہے اور نہ ہی بنیادی ضروریاتِ زندگی دستیاب ہیں۔
ادھر اقوام متحدہ کے نمائندہ برائے انسانی حقوق اجیت سنگھے نے بھی اس بات کا خدشہ ظاہر کیا ہے کہ صحافیوں کو ہدف بنا کر قتل کیا گیا ہے، جو کہ ممکنہ طور پر جنگی جرم کے زمرے میں آتا ہے۔ انھوں نے مطالبہ کیا ہے کہ تمام ہلاکتوں کی مکمل، غیر جانبدارانہ تحقیقات ہونی چاہیے تاکہ ذمہ داروں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جا سکے۔اجیت سنگھے کے مطابق فلسطینی صحافیوں کی تنظیم کا کہنا ہے کہ 7 اکتوبر 2023 کے بعد سے اب تک کم از کم 210 صحافی جاں بحق ہو چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان اموات کی غیر جانبدارانہ تحقیقات ناگزیر ہیں، کیونکہ اگر ان میں سے کسی بھی کیس میں دانستہ نشانہ بنانے کے شواہد ملتے ہیں تو وہ بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی شمار ہوں گے۔
اس کے ساتھ ہی انھوں نے عالمی برادری اور تیسرے فریق ممالک کی ذمہ داری پر زور دیتے ہوئے کہا کہ جنیوا کنونشن کے تحت ان پر لازم ہے کہ وہ فوری جنگ بندی کو یقینی بنائیں اور شہریوں، بشمول صحافیوں، کی جانوں کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔رپورٹ کے مطابق مغربی کنارے میں بھی صحافیوں کو مسلسل ہراسانی، گرفتاریوں اور حملوں کا سامنا ہے۔ 7 اکتوبر کے بعد اس دباؤ میں غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا ہے، جو ایک خطرناک رجحان کی عکاسی کرتا ہے۔