پاکستانی لڑکی سے نکاح پر سی آر پی ایف اہلکار برطرف

سی آر پی ایف اہلکار منیر احمد کا پاکستانی لڑکی سے بغیر اجازت نکاح سامنے آنے پر برطرفی، غیر قانونی قیام اور سیکیورٹی خدشات پر معاملہ عدالت پہنچ گیا ہے۔
جموں ۔ پہلگام میں ہونے والے حالیہ دہشت گرد حملے کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کے تناظر میں ایک غیرمعمولی واقعہ سامنے آیا ہے۔ مرکزی ریزرو پولیس فورس (سی آر پی ایف) کے اہلکار کی ایک پاکستانی خاتون سے شادی نے نہ صرف ادارے کو حیرت میں ڈال دیا ہے بلکہ معاملہ اب عدالتی سطح تک پہنچ چکا ہے۔سی آر پی ایف کے جوان منیر احمد، جو کہ جموں و کشمیر کے ہندوارہ علاقے سے تعلق رکھتے ہیں، نے پاکستانی شہری مینل خان سے ویڈیو کال کے ذریعے 24 مئی 2024 کو نکاح کیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق منیر نے شادی سے قبل اپنے محکمے اور جموں و کشمیر حکومت کو خط لکھ کر آگاہ ضرور کیا تھا، مگر اس نے باضابطہ اجازت ملنے سے قبل ہی نکاح کر لیا۔
مینل خان ٹورسٹ ویزا پر بھارت آئی اور نکاح کے بعد اپنے شوہر کے ساتھ مقیم ہو گئی۔ ذرائع کے مطابق مینل کا ویزا 22 مارچ کو ختم ہو چکا تھا، تاہم وہ غیر قانونی طور پر بھارت میں قیام پذیر رہی، جس پر اعتراضات اٹھائے جا رہے ہیں۔ جب منیر احمد نے اپنی اہلیہ کو واپس پاکستان بھیجنے کے لیے واہگہ بارڈر پر لے جانے کی کوشش کی، تو یہ معاملہ منظر عام پر آیا۔سی آر پی ایف نے اس پیش رفت پر فوری کارروائی کرتے ہوئے منیر احمد کو برطرف کر دیا اور ان کے خلاف محکمانہ تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔ ابتدائی تفتیش میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ منیر نے کئی قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کی ہے۔ فورس کا کہنا ہے کہ بیرونِ ملک، خاص طور پر دشمن ملک کی شہری سے شادی کے لیے محکمے سے پیشگی اجازت لینا ضروری ہے، جو کہ منیر نے حاصل نہیں کی۔ علاوہ ازیں، اپنی اہلیہ کے بھارت میں قیام اور ویزا کی مدت ختم ہونے کے باوجود اسے غیر قانونی طور پر اپنے ہمراہ رکھنے پر بھی اسے جواب دہ ٹھہرایا گیا ہے۔
فی الحال منیر کو جموں سے ہٹاکر بھوپال بھیج دیا گیا ہے، جب کہ معاملہ جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ عدالت نے 29 اپریل کو پاکستانی خاتون کو عارضی طور پر دس روزہ قیام کی اجازت دی ہے اور حکومت سے سوال کیا ہے کہ آیا آن لائن نکاح کو قانونی حیثیت حاصل ہے یا نہیں۔ اس کیس کی اگلی سماعت 14 مئی کو متوقع ہے۔فورس کے ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ حساس نوعیت کا ہے اور منیر احمد کے خلاف مکمل قانونی کارروائی کی جائے گی۔ سیکیورٹی امور کے ماہرین اس واقعے کو قومی سلامتی سے جُڑا ہوا قرار دے رہے ہیں، خاص طور پر ایسے وقت میں جب سرحد پار سے دراندازی اور دہشت گردی کے خطرات میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔