امریکی سرحدوں پر تنہا ہندوستانی بچوں کی بڑھتی آمد

امریکی سرحد پر حالیہ مہینوں میں درجنوں تنہا ہندوستانی بچے پکڑے گئے، جنہیں والدین گرین کارڈ کی امید میں جان بوجھ کر اکیلا بھیج رہے ہیں؛ ٹرمپ کی سخت امیگریشن پالیسیوں سے ان بچوں کی ملک بدری کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔
کورونا وبا کے بعد کے برسوں میں ایک تشویشناک رجحان نے سر اٹھایا ہے ۔ امریکی سرحدوں پر تنہا ہندوستانی بچوں کی بڑھتی ہوئی موجودگی۔ حالیہ مہینوں میں، اکتوبر 2024 سے لے کر فروری 2025 تک، کم از کم 77 ایسے بچوں کو امریکی بارڈر سیکورٹی حکام نے اپنی تحویل میں لیا جو بغیر کسی بالغ سرپرست کے سرحد عبور کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔یہ بچے، جو عموماً 12 سے 17 برس کے درمیانی عمر کے ہوتے ہیں، یا تو میکسیکو کے راستے سے سرحد پار کرتے ہیں یا پھر کینیڈا کی طرف سے ایک طویل اور خطرناک سفر کے بعد امریکہ پہنچتے ہیں۔ رپورٹوں کے مطابق، ان میں سے 22 کو کینیڈا کی سرد اور کٹھن راہوں سے سفر کرتے ہوئے روکا گیا۔
ذرائع بتاتے ہیں کہ کچھ خاندان، خاص طور پر بھارت کی ریاست گجرات سے، اس طریقے کو دانستہ طور پر اپنا رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اگر بچے امریکہ میں پہلے سے موجود ہوں تو والدین کو ’انسانی بنیادوں‘ پر پناہ لینے کا موقع مل سکتا ہے۔ ایسے بچوں کو امریکی امیگریشن نظام میں ’گرین کارڈ کے دروازے‘ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
ٹائمز آف انڈیا نے ایک گجراتی جوڑے کا کیس رپورٹ کیا، جنہوں نے وبا کے دوران غیرقانونی طور پر امریکہ کا سفر کیا، جب کہ ان کا دو سالہ بچہ بھارت میں رہ گیا۔ تین سال بعد، ایک رشتہ دار کے ذریعے وہ بچہ غیرقانونی طور پر امریکہ لایا گیا اور ٹیکساس سرحد پر ایک نوٹ کے ساتھ تنہا چھوڑ دیا گیا، جس میں والدین کی تفصیلات درج تھیں۔
حالیہ اطلاعات کے مطابق، سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی قیادت میں امیگریشن پالیسی دوبارہ سخت کی جا رہی ہے۔ اگر ٹرمپ اقتدار میں واپس آتے ہیں تو ممکنہ طور پر ان بچوں کو ملک بدری یا قانونی چارہ جوئی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ دی گارجین کے مطابق، امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ (ICE) کے اہلکار اب فلاحی ملاقاتوں کے دوران ایسے بچوں کی شناخت اور نگرانی پر زور دے رہے ہیں۔تشویش کی ایک اور بات یہ ہے کہ ان بچوں کو دی جانے والی قانونی مدد میں بھی رواں سال کمی آئی ہے۔ اگرچہ عدالت نے حکومت کو اس ضمن میں فنڈ جاری کرنے کا حکم دیا تھا، لیکن اب تک یہ وسائل فراہم نہیں کیے گئے۔ وفاقی ایجنسی جو ان بچوں کی نگرانی کرتی ہے، اس نے بھی امیگریشن اداروں کے ساتھ معلومات کا تبادلہ شروع کر دیا ہے، جس سے ان بچوں کی پناہ حاصل کرنے کی کوششیں مزید پیچیدہ ہو سکتی ہیں۔