مغربی بنگال میں اردو زبان کا جنازہ نکل گیا

WBCS کے نئے نصاب میں اردو کو شامل نہ کرنے پر مغربی بنگال میں اردو داں حلقوں نے سخت احتجاج کیا، اسے لسانی ناانصافی اور حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا۔
کولکاتا (نمائندہ خصوصی) — مغربی بنگال پبلک سروس کمیشن (WBCS) نے سول سروسز کے امتحانات کے لیے نیا سرکاری نصاب جاری کر دیا ہے جس میں اردو زبان کو مکمل طور پر نظرانداز کر دیا گیا ہے، حالاں کہ ریاست میں اردو بولنے والوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ نئے نصاب کے مطابق، 300 نمبر کا بنگالی زبان کا پرچہ پاس کرنا لازمی قرار دیا گیا ہے، جو اردو داں امیدواروں کے لیے ایک تشویشناک صورت حال پیدا کرتا ہے۔ ویسٹ بنگال سول سروسز امتحان (WBCS) کے تحت جاری کیے گئے اس نئے نصاب میں، مین امتحان کے دو اختیاری زبانوں کے پرچوں میں سے اردو کو نکال دیا گیا ہے، جب کہ بنگالی، ہندی، نیپالی اور دیگر زبانوں کو شامل رکھا گیا ہے۔ اس عمل کو نہ صرف اردو زبان کے ساتھ ناانصافی قرار دیا جا رہا ہے بلکہ اردو بولنے والے امیدواروں کے بنیادی لسانی حقوق کی خلاف ورزی بھی کہا جا رہا ہے۔ ریاستی حکومت اور متعلقہ حکام کی جانب سے بارہا وعدے کیے گئے تھے کہ اردو کو اس کا جائز مقام دیا جائے گا، لیکن WBCS کے تازہ ترین اقدام نے ان وعدوں کی قلعی کھول دی ہے۔ ماہرین تعلیم، اردو تنظیموں اور سیاسی و سماجی حلقوں میں اس فیصلے کے خلاف شدید ردِ عمل پایا جا رہا ہے، اور کئی حلقوں نے اسے اردو زبان کی منظم بے دخلی سے تعبیر کیا ہے۔ اردو کے علمی، ادبی اور ثقافتی ورثے کو نظرانداز کرنا صرف ایک زبان سے زیادتی نہیں بلکہ برِصغیر کی گنگا جمنی تہذیب پر کاری ضرب کے مترادف ہے۔ مغربی بنگال میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے، مگر عملی سطح پر اسے مسلسل نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ متعدد اردو دانشوروں اور اساتذہ نے ریاستی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ WBCS کے نصاب میں فوری ترمیم کی جائے اور اردو زبان کو اس کا حق دیا جائے۔ اگر اردو کو اس فہرست میں شامل نہ کیا گیا تو یہ فیصلہ اقلیتوں کے ساتھ سخت ناانصافی تصور ہوگا۔
