پہلگام دہشتگرد حملہ: وادی کی فضا سوگوار، بھارت کا شدید ردعمل، عالمی سطح پر مذمت

پہلگام میں دہشتگرد حملے میں 26 افراد کی ہلاکت پر بھارت نے سخت اقدامات کیے، کشمیر اور عالمی سطح پر شدید ردعمل سامنے آیا۔
22 اپریل 2025 کو جموں و کشمیر کے معروف سیاحتی مقام، بیسارن وادی (جسے “منی سوئٹزرلینڈ” بھی کہا جاتا ہے) میں پیش آئے اندوہناک دہشتگرد حملے نے پورے بھارت کو غم و غصے کی لپیٹ میں لے لیا۔ اس حملے میں 26 بے گناہ افراد جاں بحق ہوئے، جن میں اکثریت سیاحوں کی تھی۔ حملے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم “دی ریزسٹنس فرنٹ” نے قبول کی، جو مبینہ طور پر لشکرِ طیبہ کا ذیلی گروہ ہے۔بھارتی حکومت نے اس حملے کو سرحد پار دہشت گردی کا کھلا ثبوت قرار دیتے ہوئے فوری اور سخت اقدامات کیے۔ وزیراعظم نریندر مودی کی صدارت میں سیکیورٹی کابینہ کمیٹی کے ہنگامی اجلاس میں پانچ بڑے فیصلے کیے گئے، جن میں سندھ طاس معاہدے کی معطلی، اٹاری-واہگہ بارڈر کی بندش، پاکستانی شہریوں کے ویزے منسوخ کر کے ملک بدر کرنے کا حکم، پاکستانی ہائی کمشنر کو واپس بھیجنا، اور پاکستانی سفارتی عملے کو واپس بلانا شامل ہیں۔
ادھر، پاکستانی حکومت نے حملے سے لا تعلقی کا اظہار کیا، مگر ان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے متنازع بیان، جس میں انہوں نے کشمیر کو “پاکستان کی شہ رگ” قرار دیا، کو اشتعال انگیز قرار دیا جا رہا ہے۔واقعے کے بعد کشمیر میں بھی غیر معمولی ردعمل دیکھنے کو ملا۔ کئی دہائیوں بعد وادی میں مکمل ہڑتال ہوئی، شہری سڑکوں پر نکلے، اور پاکستانی پرچم نذرِ آتش کیے گئے۔ معروف کشمیری سیاستدان محبوبہ مفتی نے کہا کہ یہ حملہ نہ صرف انسانیت بلکہ کشمیریت پر بھی حملہ ہے۔
بین الاقوامی برادری نے بھی اس حملے پر شدید ردعمل دیا۔ امریکی نائب صدر نے وزیراعظم مودی سے رابطہ کر کے اظہارِ تعزیت کیا اور بھارت کے ساتھ کھڑے ہونے کا پیغام دیا۔ امریکی صدر نے واقعے کو “تشویشناک” قرار دیا۔سوشل میڈیا پر بھی شدید غم و غصے کا اظہار ہوا، جہاں بھارتی صارفین نے سخت جوابی اقدامات کا مطالبہ کیا، جبکہ بعض پاکستانی حلقوں نے اس حملے کو بھارتی پالیسیوں کا نتیجہ قرار دیا۔بھارت نے سیکیورٹی مزید سخت کر دی ہے، حساس علاقوں میں اضافی نفری تعینات کر دی گئی ہے اور این آئی اے کی تحقیقات جاری ہیں۔ اس واقعے نے نہ صرف دونوں ممالک کے تعلقات میں کشیدگی پیدا کی ہے بلکہ علاقائی امن پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔