خبرنامہ

پہلگام حملہ: 26 افراد ہلاک، عالمی سطح پر مذمت

انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے معروف سیاحتی مقام پہلگام میں ہونے والے ایک خونی حملے نے پورے ملک کو غم اور صدمے میں مبتلا کر دیا ہے۔ اس حملے میں انڈین بحریہ کے ایک افسر سمیت کم از کم 26 سیاحوں کی ہلاکت کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔ عالمی سطح پر اس واقعے کی شدید مذمت کی جا رہی ہے، جب کہ داخلی سطح پر سکیورٹی اقدامات اور سیاسی ردعمل کا سلسلہ جاری ہے۔یہ حملہ ایسے موقع پر ہوا جب امریکی نائب صدر جے ڈی وینس انڈیا کے دورے پر موجود تھے، جبکہ وزیر اعظم نریندر مودی نے سعودی عرب کا اپنا سرکاری دورہ اچانک مختصر کر کے بدھ کی صبح وطن واپسی اختیار کی۔ دہلی پہنچتے ہی انھوں نے ایک اعلیٰ سطحی سکیورٹی اجلاس طلب کیا جس میں وزیر خارجہ، قومی سلامتی کے مشیر اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ ابھی تک اس اجلاس کا کوئی باقاعدہ اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا، مگر وزیر اعظم نے اپنے ایک بیان میں حملے کو سفاکانہ قرار دیتے ہوئے حملہ آوروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا وعدہ کیا ہے۔
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس واقعے پر اظہارِ افسوس کرتے ہوئے انڈیا کے ساتھ یکجہتی کا اعلان کیا، جب کہ روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے بھی شدید مذمت کی ہے۔ حملے کے فوراً بعد وزیر داخلہ امت شاہ سرینگر پہنچے، جہاں انھوں نے گورنر اور سکیورٹی اداروں کے سربراہان سے ملاقات کی۔ابتدائی اطلاعات میں اس حملے کو ایک معمولی واقعہ قرار دیا گیا تھا، مگر بعد میں سامنے آنے والی تفصیلات نے اس کی سنگینی کو نمایاں کر دیا۔ تاحال کسی بھی تنظیم نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول نہیں کی، اور نہ ہی انڈیا یا پاکستان کی حکومتوں نے کوئی باضابطہ بیان جاری کیا ہے۔
ادھر انڈین میڈیا کے کئی چینلز پر سابق فوجی افسران اور دفاعی تجزیہ کار اس واقعے کا الزام پاکستان پر عائد کرتے نظر آئے۔ بعض تجزیہ کاروں نے اس حملے کو مذہبی تعصب کی بنیاد پر کیا گیا قرار دیا، جبکہ دیگر نے اسے ایک جہادی نظریے سے منسلک کرنے کی کوشش کی۔ چینلز پر اس واقعے کو انڈیا کی سالمیت پر حملہ قرار دے کر جوابی کارروائی کی باتیں کی گئیں۔
دوسری جانب پاکستان میں اس حملے کے بعد انڈین میڈیا کے بیانیے کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ پاکستان کے سابق سفارت کاروں اور سیاسی شخصیات نے انڈین دعوؤں کو بے بنیاد قرار دیا اور کہا کہ اس نوعیت کی الزامات تراشی کا مقصد اصل حقائق سے توجہ ہٹانا ہے۔ سابق سیکریٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی نے کہا کہ بغیر تحقیق کے پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرانا ایک پرانی روایت ہے، جبکہ سابق سفیر عبدالباسط نے خبردار کیا کہ پاکستان ہر قسم کی جارحیت کا جواب دینے کے لیے پوری طرح تیار ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے بھی اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ایسے حملے افسوسناک ہیں، مگر انڈین حکومت کو اپنی ناکامیوں کا بوجھ پاکستان پر ڈالنے کی پالیسی ترک کرنی چاہیے۔ کئی صحافیوں اور تجزیہ کاروں نے سوشل میڈیا پر پاکستان کی دفاعی تیاریوں کا ذکر کرتے ہوئے کسی بھی ممکنہ کارروائی کے لیے تیار رہنے کا عندیہ دیا۔یہ حملہ ایک بار پھر خطے میں کشیدگی کے خدشات کو بڑھا رہا ہے۔ اگرچہ ابھی تک تمام تفصیلات منظر عام پر نہیں آئیں، تاہم عوامی اور سیاسی حلقوں میں بحث شدت اختیار کر چکی ہے۔ موجودہ حالات میں ضروری ہے کہ تحقیقات مکمل ہونے دی جائیں اور کسی بھی اقدام سے پہلے ذمہ داری کا تعین حقائق کی بنیاد پر کیا جائے۔

admin@alnoortimes.in

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

خبرنامہ

لاس اینجلس میں جنگل کی آگ سے بڑے پیمانے پر تباہی، اموات کی تعداد 24ہوئی، امدادی کوششیں جاری

امریکہ کی ریاست کیلی فورنیا کے شہر لا اینجلس میں ایک ہفتے سے لگی بھیانک آگ مزید 8 جانیں نگل
خبرنامہ

چین کبھی بھی امریکہ کو پیچھے نہیں چھوڑ سکتا

واشنگٹن(ایجنسیاں) صدر بائیڈن نے پیر کو خارجہ پالیسی پر اپنی آخری تقریر میں بڑا دعویٰ کیا۔ انھوں نے اپنی تقریر