سابق ڈی جی پی اپنے ہی گھر میں قتل، اہل خانہ زیرِ تفتیش

ریٹائرڈ ڈی جی پی او پی بنگلور میں اپنے گھر میں قتل کر دیے گئے، بیوی اور بیٹی پر شک، پولیس جائیداد تنازع اور ذہنی صحت کے پہلوؤں پر تفتیش کر رہی ہے۔
بنگلور – شہر کے مشہور و معروف HSR لے آؤٹ کے 14ویں کراس روڈ پر اتوار کی شام اچانک خاموشی کا ایک ایسا طوفان برپا ہوا، جس نے پورے علاقے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ جب لوگ معمول کی زندگی میں مصروف تھے، تبھی ریاست کے ایک سابق پولیس سربراہ، 68 سالہ ریٹائرڈ ڈی جی پی او پی، اپنے ہی بنگلے میں مردہ پائے گئے۔ ان کے جسم پر چاقو کے سنگین زخم تھے، اور قریب ہی خون آلود ایک کچن نائف بھی موجود تھا۔
ایک فون کال جو چونکا دینے والی نکلی
شام تقریباً ساڑھے چار بجے، پولیس کنٹرول روم میں ایک خاتون کی کال موصول ہوئی۔ وہ تھیں مقتول کی اہلیہ، جنھوں نے ایک پراسرار لہجے میں بس اتنا کہا: “میرے شوہر مر چکے ہیں”۔ فون بند ہوا، اور پولیس فوراً جائے وقوعہ کی طرف روانہ ہوئی۔مگر جب اہلکار وہاں پہنچے تو دروازہ بند تھا۔ پ اور ان کی بیٹی گھر کے اندر موجود تھیں، مگر دروازہ کھولنے سے انکار کر رہی تھیں۔ بالآخر پولیس نے زبردستی اندر داخل ہوکر ان دونوں کو حراست میں لیا۔
منظر: سکوت میں لپٹی خون کی داستان
گھر کے اندر کا ماحول بے حد ہولناک تھا۔ ڈرائنگ روم میں مقتول کی لاش خون میں لت پت پڑی تھی، فرش پر خون کا تالاب سا بن چکا تھا۔ کھانے کی میز پر رکھا کھایا کھانا اس بات کا گواہ تھا کہ یہ دن کسی معمول کے مطابق شروع ہوا تھا، مگر انجام غیر معمولی نکلا۔پولیس کو خاتون کی ذہنی کیفیت، ان کے رویے اور جائے واردات سے ملنے والے شواہد کی روشنی میں واقعے کی تہہ تک جانے کی کوشش کرنی پڑی۔
تفتیش کا دائرہ تنگ، شک کی سوئیاں اہل خانہ کی طرف
ذرائع کا کہنا ہے کہ واردات کے بعد انھوں نے ایک سابق پولیس افسر کی بیوی کو فون کرکے کہا: “میں نے اُس درندے کو ختم کر دیا”۔ بعد ازاں انھوں نے پولیس کو بھی اطلاع دی۔پولیس نے موقع سے دو چاقو اور ایک مرچ پاوڈر کی بوتل بھی برآمد کی، جس سے شبہ ہے کہ پہلے مرچ پاوڈر کا استعمال کرکے مقتول کو بے بس کیا گیا، پھر چاقو سے کئی وار کیے گئے۔
ذہنی بیماری یا سنجیدہ سازش؟
معلومات ملی ہیں کہ ملزمہ کئی برسوں سے ذہنی مسائل سے دوچار تھیں۔ کچھ ذرائع کے مطابق وہ شیزوفرینیا کا شکار تھیں اور باقاعدہ علاج کرواتی رہی تھیں۔ چند ماہ قبل وہ ایک پولیس تھانے کے باہر احتجاج کرتی بھی دیکھی گئیں، جس کا مقصد آج تک واضح نہیں ہو سکا۔دوسری طرف بیٹی جو واردات کے وقت گھر میں موجود تھیں، دعویٰ کرتی ہیں کہ وہ ایک الگ کمرے میں تھیں۔ پولیس ان کے اس بیان کی سچائی جانچ رہی ہے: کیا وہ واقعی بے خبر تھیں یا کسی طور پر ملوث؟
جائیداد کا جھگڑا – ممکنہ وجہ؟
تفتیش میں یہ بھی سامنے آیا ہے کہ او پی اپنی جائیداد اپنے بیٹے کارتی کے نام کرنا چاہتے تھے، جس پر ان کی بیوی ناراض تھیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ قتل سے قبل گھر میں سخت جھگڑا ہوا تھا۔اس پہلو پر بھی غور ہو رہا ہے کہ کیا یہ قتل ذاتی ناراضی کا نتیجہ تھا یا کوئی بڑی سازش؟ کیا اس میں بیٹی کی بھی شمولیت ہے؟ پولیس نے دونوں سے طویل پوچھ گچھ کی ہے اور ان کے بیانات کا تجزیہ کیا جا رہا ہے۔
ایک قابل افسر کی الم ناک موت
او پی، جو 1981 بیچ کے آئی پی ایس افسر تھے، نے ریاست کے کئی حساس اضلاع میں خدمات انجام دیں۔ 2015 سے 2017 تک وہ ریاست کے ڈی جی پی رہے۔ ان کا شمار ان افسران میں ہوتا تھا جنھوں نے کئی ہائی پروفائل مقدمات میں کلیدی کردار ادا کیا، جن میں بی جے پی دفتر پر بم دھماکہ اور چرچ اسٹریٹ بلاسٹ شامل ہیں۔مگر ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی زندگی میں سکون کم اور تناؤ زیادہ نظر آتا ہے۔ کچھ قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ انہوں نے خطرے کی پیش گوئی کی تھی، جو اب حقیقت بن چکی ہے۔
پولیس کی اگلی کارروائی
بیٹے کارتی کی جانب سے دائر شکایت پر پولیس نے پ اور ک کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کر لیا ہے۔ اب پولیس پ کے ذہنی علاج کے ریکارڈ کا جائزہ لے رہی ہے۔ واقعے نے ریاست کی سلامتی پر بھی سوالات کھڑے کر دیے ہیں، اور عوامی سطح پر یہ آواز گونجنے لگی ہے: “جب ایک سابق ڈی جی پی محفوظ نہیں، تو عام شہری کا کیا ہوگا؟”
یہ سانحہ بہت سے سوال چھوڑ گیا ہے:
کیا یہ محض جائیداد کا جھگڑا تھا؟کیا پ کی ذہنی حالت واقعے کی بنیادی وجہ ہے؟کیا بیٹی کی شمولیت محض اتفاقیہ ہے یا وہ شریک جرم ہے؟
اور سب سے اہم: کیا مقتول کو واقعی اپنی موت کا اندیشہ تھا؟
ان تمام سوالات کا جواب وقت اور تفتیش دے گی۔ لیکن فی الحال، HSR لے آؤٹ کا وہ بنگلہ، جو کبھی ایک افسر کا پُرامن مسکن تھا، اب ایک بھیانک یادگار بن چکا ہے۔