منسٹر محمد غلام ربانی نے وقف ترمیمی بل 2025 کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر کیا مقدمہ

منسٹر محمد غلام ربانی نے وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے اسے اقلیت دشمن، غیر آئینی اور مسلمانوں کے مذہبی و آئینی حقوق کے خلاف قرار دیا ہے۔
نئی دہلی (خصوصی نامہ نگار) — معروف سماجی و سیاسی شخصیت اور منسٹر محمد غلام ربانی صاحب نے بھارت کی سپریم کورٹ میں وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 کے خلاف ایک اہم آئینی عرضداشت دائر کی ہے، جس میں اس قانون کی متعدد دفعات کو چیلنج کرتے ہوئے انہیں غیر آئینی، جابرانہ اور اقلیت دشمن قرار دیا گیا ہے۔
درخواست گزار محمد غلام ربانی کا مؤقف ہے کہ یہ ترامیم نہ صرف مسلمانوں کے مذہبی و آئینی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہیں بلکہ یہ ان کے وقف املاک کے انتظام و انصرام میں خودمختاری کو بھی سلب کرتی ہیں۔ ان کے مطابق مذکورہ ترمیمی قانون مسلمانوں کی اجتماعی شناخت، ثقافتی آزادی اور بنیادی آئینی تحفظات کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔
اہم نکات جن پر اعتراض کیا گیا:
درخواست میں کہا گیا ہے کہ وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 بھارتی آئین کے آرٹیکل 14 (برابری کا حق)، 15، 21 (زندگی و آزادی کا حق)، 25 اور 26 (مذہبی آزادی)، 29 اور 30 (اقلیتوں کے ثقافتی و تعلیمی حقوق) اور 300A (ملکیت کا حق) کی خلاف ورزی کرتا ہے۔
درخواست گزار نے مزید کہا کہ یہ ترامیم:
وقف املاک کے نظم و نسق میں مسلم برادری کی خودمختاری کو متاثر کرتی ہیں۔
وقف سے متعلقہ قانونی تحفظات اور ان کے ضوابط کو کمزور کرتی ہیں۔
حقوق کی واپسی نہ ہونے کے اصول (Doctrine of Non-retrogression) سے بھی متصادم ہیں۔
عدالت سے درخواست:
درخواست گزار نے معزز عدالت سے گزارش کی ہے کہ وہ ان ترامیم کو غیر آئینی، کالعدم اور باطل قرار دے اور وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 پر فوری طور پر حکمِ امتناعی (Stay Order) جاری کرے، تاکہ مسلمانوں کے مذہبی و قانونی حقوق کا تحفظ کیا جا سکے۔
دستاویزی معاونت:
عرضداشت کے ساتھ ایک مکمل حلف نامہ، اہم آئینی دفعات، مقدمے سے متعلق تاریخ وار واقعات کی فہرست، اور شناخت کے لیے آدھار و پین کارڈ کی نقول منسلک کی گئی ہیں۔
قانونی نمائندگی:
درخواست گزار کی قانونی نمائندگی معروف وکیل ایڈوکیٹ محمد شاہد انور کر رہے ہیں، جن کی رابطہ تفصیلات اور AOR کوڈ بھی عرضداشت میں شامل ہیں۔یہ مقدمہ ملک میں اقلیتوں کے حقوق اور آئینی خودمختاری کے تحفظ کے حوالے سے ایک اہم سنگِ میل ثابت ہو سکتا ہے۔