ابراہیمی مذہب: اتحاد کی کوشش یا اسلامی تشخص پر حملہ؟

منصورالحق سعدی،علی گڑھ
دنیا میں مذاہب کا ارتقا ایک طویل اور پیچیدہ سفر ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان نے اپنے عقائد، نظریات اور روحانی تشنگی کے اظہار کے مختلف طریقے اختیار کیے۔ حالیہ برسوں میں “ابراہیمی”کے نام سے ایک نئے مذہب کا تذکرہ سامنے آیا ہے جو تین بڑے مذاہب یعنی یہودیت، عیسائیت، اور اسلام کے مشترکہ عقائد اور تاریخی بنیادوں پر قائم کیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا “ابراہیمی”ایک نیا مذہب ہے، یا یہ صرف ابراہیمی مذاہب کے مابین امن، اتحاد اور مشترکہ اقدار کو فروغ دینے کی ایک تحریک ہے؟
حالیہ دہائیوں میں بعض عالمی طاقتیں اور ادارے ایک Abrahamic Faiths یا ابراہیمی مذاہب کا تصور عام کر رہے ہیں۔ اس تصور کے مطابق اسلام، عیسائیت اور یہودیت تینوں ایک ہی ابراہیمی بنیاد پر کھڑے ہیں اور ان میں بنیادی یکسانیت ہے۔ اس بیانیے کے مطابق ان مذاہب کے پیروکاروں کو باہم اتحاد، قربت اور مشترکہ عبادات کی طرف راغب کیا جا رہا ہے۔
ابراہیمی مذاہب کی بنیاد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شخصیت پر ہے، جو تینوں مذاہب میں نبی و پیغمبر کے طور پر تسلیم کیے جاتے ہیں۔ یہودیت میں حضرت ابراہیم کو “باپِ قوم” کہا جاتا ہے، عیسائیت میں انہیں ایمان کی علامت سمجھا جاتا ہے، جبکہ اسلام میں انہیں “خلیل اللہ” یعنی اللہ کے دوست کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔
ابراہیمی تحریک یا نظریہ کا بنیادی مقصد مذاہب کے درمیان رواداری،مکالمہ اور پرامن بقائے باہمی کو فروغ دینا ہے۔ اسے بعض افراد اور تنظیمیں ایک نئے مذہب کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتی ہیں، جبکہ دوسروں کے نزدیک یہ صرف ایک بین المذاہب مکالمہ ہے، جس کا مقصد نفرت، شدت پسندی اور مذہبی تصادم کو ختم کرنا ہے۔
متحدہ عرب امارات میں ابراہیمی فیملی ہاؤس جیسے منصوبے اس تحریک کی عملی مثالیں ہیں، جہاں ایک مسجد، چرچ اور یہودی عبادت گاہ کو ایک ہی احاطے میں تعمیر کیا گیا ہے تاکہ تینوں مذاہب کے پیروکار ایک دوسرے کے قریب آ سکیں۔
اس تحریک پر تنقید بھی کی گئی ہے۔ بعض مذہبی حلقے اسے اپنے عقائد میں مداخلت سمجھتے ہیں اور خدشہ ظاہر کرتے ہیں کہ اس کے ذریعے مذاہب کو خلط ملط کر کے ایک نیا مذہب بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان کے مطابق ہر مذہب کی اپنی شناخت، عقائد اور عبادات ہوتی ہیں جنہیں یکجا کرنا مذہبی حدود کی خلاف ورزی ہو سکتی ہے۔
ابراہیمی نظریہ کو بعض لوگ امید کی ایک کرن سمجھتے ہیں، جو عالمی سطح پر بین المذاہب امن، بھائی چارےاور انسانیت کی فلاح کے لیے ایک اہم قدم ہو سکتا ہے۔ دنیا میں جہاں مذہبی اختلافات کی بنیاد پر جھگڑے اور جنگیں ہوتی ہیں، وہاں ایسا نظریہ دلوں کو جوڑنے کی کوشش کر سکتا ہے۔
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو نہ صرف روحانی بلکہ سماجی، اخلاقی، سیاسی اور معاشی میدانوں میں بھی مکمل رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ قرآن اور سنتِ نبوی ﷺ کی روشنی میں واضح ہوتا ہے کہ اسلام آخری اور مکمل دین ہے، جس کے بعد کسی نئے مذہب یا عقیدہ کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ اس تناظر میں جدید یا “ماڈرن” مذاہب، جو مختلف فلسفیانہ یا روحانی نظریات پر مبنی ہوتے ہیں،اسلام کے نظریات کے مطابق غیر ضروری ہی نہیں، بلکہ واضح طور پر گمراہی کا ذریعہ ثابت ہونگے ۔
سورۃ المائدہ کی آیت نمبر ۳ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو (بطور) دین (یعنی مکمل نظامِ حیات کی حیثیت سے) پسند کر لیا۔
اس آیت کی روشنی میں واضح ہوتا ہے کہ مذہب اسلام کسی تبدیلی یا اضافے کا محتاج نہیں۔ دین کی تکمیل کے بعد نئے مذاہب یا اصلاحی تحریکوں کا آنا گویا اللہ کے فیصلے سے انکار کے مترادف ہے۔
جدید مذاہب یا روحانی تحریکیں عموماً درج ذیل پہلوؤں پر زور دیتی ہیں:
- فرد کی ذاتی خواہشات کے مطابق آزادی اور ذاتی ترقی
- مذہب کو صرف اخلاقی حدود تک محدود رکھنا
- وحی یا آسمانی کتابوں کی بجائے عقل کو بنیادی ذریعہ ماننا
- عبادات کو علامتی یا اختیاری سمجھنا
یہ تمام نظریات اسلامی تعلیمات کے برخلاف ہیں، کیونکہ اسلام میں وحی کو عقل پر فوقیت حاصل ہے، اور عبادات کو فرض اور لازمی قرار دیا گیا ہے۔
جدید مذہب ابراہیمی کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ یہ انسان کو اصل دین سے دور کرنے کی سازش ہے ۔ انسان اپنی خواہشات کو دین کا نام دے کر عمل کرتا ہے، اور یہ چیز روحانی طور پر زوال کا سبب بنتی ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
“میری امت تہتر فرقوں میں بٹے گی، ان میں سے ایک ہی نجات پائے گا۔”
یہ نجات یافتہ گروہ وہی ہے جو قرآن اور سنت پر عمل پیرا ہے۔ لہٰذا ہر وہ تحریک یا نظریہ جو اسلام کی اصل تعلیمات سے ہٹ کر ہو، وہ نہ صرف غیر ضروری ہے بلکہ نقصان دہ بھی ہے۔
ابراہیمی کو نیا مذہب کہنا شاید درست نہ ہو، بلکہ یہ ابراہیمی مذاہب کے مشترکہ اقدار کو اجاگر کرنے کی ایک جدید کوشش ہے۔
اسلام کے نظریات کے مطابق جدید مذاہب کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہ انسان کو اللہ کی بھیجی ہوئی کامل ہدایت سے دور لے جاتے ہیں۔ ایک مسلمان کے لیے لازم ہے کہ وہ صرف قرآن و سنت کو اپنی زندگی کا محور بنائے اور کسی نئے نظریے یا مذہب کے پیچھے نہ چلے۔
اسلام محض ایک مذہب نہیں بلکہ انسان کی انفرادی و اجتماعی زندگی کے تمام پہلوؤں کے لیے الٰہی ہدایت کا مکمل نظام ہے۔ اس کا بنیادی مقصد انسان کو خدا سے جوڑنا، اس کے نفس کو پاک کرنا، اور اس کے قلب و روح کو اللہ کی اطاعت میں داخل کرنا ہے۔ یہ دین کسی وقتی ضرورت یا انسانی خواہشات پر مبنی نہیں بلکہ ایک ازلی و ابدی سچائی ہے جو وحی کے ذریعے نازل ہوئی اور ہمارے آقا رسول اکرم ﷺ کے ذریعے مکمل ہوئی۔
اسلام کی تعلیمات میں روحانیت کا ایک گہرا رنگ نمایاں نظر آتا ہے۔ یہ روایات قرآن، سنت اور صحابہ کرامؓ کے عمل سے پھوٹتی ہیں:
- ذکر و عبادت: قرآن پاک میں بار بار ذکرِ الٰہی اور نماز کی تاکید کی گئی ہے، جو بندے کو خدا کے قریب کرتی ہیں۔
- اتباعِ نبوی ﷺ: رسول اللہ ﷺ کی زندگی، ان کا زہد، توکل، اور دنیا سے بے رغبتی ۔یہ سب اسلام کی حقیقی روحانی روایات کا مظہر ہیں۔
- تزکیہ نفس: اسلام کی روح تزکیہ نفس میں پوشیدہ ہے۔ نفس کی تربیت، خواہشات کی قربانی اور صبر و شکر کی کیفیت انسان کو اللہ کی رضا حاصل کرنے کی جانب متوجہ کرتی ہے۔
- تصوف اور سلوک: تصوف قرآن و سنت میں موجود روحانی تربیت کی عملی مشق کی راہ ہیں۔
یہ تمام روایات انسان کو اس کی تخلیق کے مقصدیعنی اللہ کی بندگی کی طرف لے جاتی ہیں۔
آج کے دور میں کچھ مخصوص حلقے یا تحریکیں “جدید ابراہیمی مذاہب یا یونیوَرسل اسپریچوئلٹی (universal spirituality) کے نام پر ایک ایسا تصور پیش کر رہی ہیں جو بظاہر تو تمام مذاہب کو اکٹھا کرنے کی بات کرتی ہے، لیکن درحقیقت وہ اسلام کی روحانی بنیادوں کو مسخ کرنے کی کوشش ہے۔ ان تحریکوں میں چند بنیادی نکات نمایاں ہیں:
- وحی کی اہمیت کم کرنا اور عقل یا ذاتی تجربے کو دین کا اصل ماخذ قرار دینا۔
- عبادات کو اختیاری یا علامتی بنانا، جیسے نماز، روزہ، حج کو محض “روحانی مشقیں” کہنا۔
- آخرت کا تصور دھندلا دینا اور صرف دنیاوی کامیابی کو “روحانی ترقی” کا معیار بنانا۔
- شریعت کو پرانا یا وقتی نظام کہنا اور صرف اخلاقیات کو دین قرار دینا۔
یہ تمام تصورات دراصل اسلام کی روحانی اور شریعت پر مبنی روایت کی نفی کرتے ہیں۔ جدید ابراہیمی تحریکیں مذہب کو ایک سماجی ادارہ بنا کر پیش کرتی ہیں، جو صرف انسان کی دنیاوی اور نفسیاتی ضروریات پوری کرے، نہ کہ اس کو خدا کی طرف لے جائے۔
جب دین کو صرف اخلاقی اصول، ذاتی سکون، یا سماجی مساوات تک محدود کر دیا جائے، تو وہ اپنی اصل سے ہٹ جاتا ہے۔ اسلام میں دنیاوی زندگی اہم ہے، مگر اس کی حیثیت ایک ذریعہ کی ہے، نہ کہ مقصد کی۔ جدید تحریکیں اس ترتیب کو الٹ کر دنیا کو مقصد اور دین کو ذریعہ بنا دیتی ہیں۔ یہ درحقیقت ایک فکری سازش ہے، جس کا مقصد انسان کو روحانی غلامی میں مبتلا رکھنا ہے، تاکہ وہ خدا کی طرف رجوع نہ کرے بلکہ اپنی خواہشات کو ہی معبود بنا لے۔
سورہ الجاثیہ کی آیت نمبر ٢٣ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
“کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی نفسانی خواہش کو معبود بنا رکھا ہے”
یہی وہ رویہ ہے جو جدید ابراہیمی طرزِ فکر میں پنپ رہا ہے۔
آج کے دور میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اسلام کی ان روحانی، اخلاقی اور عباداتی روایات کو زندہ کریں جو انسان کو اللہ کے راستے پر گامزن کرتی ہیں۔ ہمیں ان جدید تحریکوں کے ظاہری دعوؤں سے دھوکہ نہیں کھانا چاہیے، جو دین کو محض ایک “پرسنل ڈویلپمنٹ ٹول” یا “سماجی ہارمونی” کا ذریعہ بنا کر پیش کرتی ہیں۔
اسلام صرف امن، اخلاق یا سماجی انصاف کا نام نہیں، بلکہ یہ سب چیزیں اللہ کی بندگی اور شریعت کی پیروی سے حاصل ہوتی ہیں، نہ کہ کسی ماڈرن مذہبی فلسفے سے۔
اسلام ایک ایسا مکمل ضابطۂ حیات ہے جو انسان کو اس کی فطرت، روحانیت، اخلاقیات، اور معاشرتی تقاضوں کے مطابق زندگی گزارنے کا راستہ دکھاتا ہے۔ اسلام کا بنیادی اصول توحید، رسالت اور آخرت پر ایمان ہے۔ تاہم، عصرِ حاضر میں جو “مذہبِ ابراہیمی” کے نام پر ایک نیا بیانیہ پیش کیا جا رہا ہے، وہ اسلامی تعلیمات کے کئی بنیادی اصولوں سے انحراف کرتا نظر آتا ہے۔ یہ بیانیہ مغربی سیاسی، سماجی اور مذہبی ایجنڈے کے تحت ترتیب دیا گیا ہے جس کا مقصد مذاہب عالم کو ایک ہی سطح پر لا کر بین المذاہب اتحادکے نام پر مسلمانوں کو دنیاوی تاریکی کی جانب دھکیلنا ہے۔
یہ بات ایک حد تک درست ہے کہ تینوں مذاہب حضرت ابراہیم علیہ السلام سے نسبت رکھتے ہیں، لیکن ان کی تعلیمات میں فرق اتنا گہرا ہے کہ ان کو ایک ہی قالب میں ڈھالنے کی کوشش نہ صرف علمی بددیانتی ہے بلکہ روحِ اسلام کے بھی منافی ہے۔
اسلام کا توحید پر یقین کسی بھی دوسرے مذہب سے منفرد اور ممتاز ہے۔ یہودیت میں نسل پرستی اور محدود خدائی تصور ہے، جب کہ عیسائیت میں تثلیث یعنی تین خداؤں کا تصور پایا جاتا ہے۔ اس کے برخلاف اسلام “لا الٰہ الا اللہ” کے ذریعے خالص توحید کی تعلیم دیتا ہے۔ جدید “ابراہیمی مذہب” کا بیانیہ اس توحیدی تصور کو دھندلا کر بین المذاہب مشترکات پر زور دیتا ہے، جو کہ اسلامی عقائد کو کمزور کرنے کی ایک حکمتِ عملی بن چکی ہے۔
اسلام کا ایک غیر متزلزل عقیدہ “ختمِ نبوت” ہے۔ پیغمبر اسلام احمد مجتبیٰ ﷺ کو آخری نبی ماننا ایمان کا بنیادی جزو ہے۔ جب کہ جدید ابراہیمی تحریک میں اس عقیدے کو نظر انداز کر کے تینوں مذاہب کو ایک ہی درجہ دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مسلمان نبی اکرم ﷺ کی نبوت کے مقام و مرتبے سے نظریاتی طور پر پیچھے ہٹنا شروع کر دیتے ہیں۔
اسلام زندگی کے ہر شعبے میں ہدایت دیتا ہے، چاہے وہ انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی نظام۔ شریعتِ اسلامی مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ تاہم، جدید ابراہیمی تحریک اس شریعت کی جگہ سیکولر اقدار، جمہوری نظریات اور مغربی آزادیوں کو فروغ دیتی ہے۔ اس کے نتیجے میں مسلم معاشرے اپنی اصل شناخت سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔
ابراہیمی مذاہب کی مہم میں بعض اوقات بین المذاہب عبادت گاہیں بھی قائم کی جا رہی ہیں، جہاں مسجد، کلیسا اور کنیسہ کو یکساں مانتے ہوئے ایک ہی احاطے میں عبادت کرنے کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ یہ عمل اسلام کے عباداتی اور اعتقادی اصولوں کے صریح خلاف ہے، کیوں کہ اسلام میں عبادت صرف اللہ تعالیٰ کے لیے مخصوص ہے اور شرک کو ناقابلِ معافی گناہ قرار دیا گیا ہے۔
اسلام ایک ایسا مکمل دین ہے جو نہ صرف انسان کی انفرادی بلکہ اجتماعی زندگی کے تمام پہلوؤں کی رہنمائی کرتا ہے۔ جدید ابراہیمی مذہب کا بیانیہ اسلام کی اصل روح، اس کی توحید، رسالت، شریعت اور عبادات کو ماند کرنے کی ایکسوچی سمجھی سازش ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اس فتنے سے باخبر رہیں، اپنے عقائد اور دینی شناخت کی حفاظت کریں اور اسلام کی خالص تعلیمات کو اپنائیں۔
