ایران اور امریکہ میں جوہری مکالمہ، اسرائیل کی نیندیں حرام

امریکہ اور ایران کئی سال بعد جوہری معاہدے پر براہِ راست مذاکرات کرنے جا رہے ہیں، ایران 60٪ افزودہ یورینیئم کے ساتھ خطرناک حد کے قریب ہے، جب کہ اسرائیل تشویش میں مبتلا ہے۔
کئی برسوں کی کشیدگی کے بعد امریکہ اور ایران ایک بار پھر براہِ راست مذاکرات کے لیے آمادہ ہو گئے ہیں۔ ہفتے کے روز ہونے والی یہ بات چیت ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے ممکنہ نئے معاہدے کی بنیاد بن سکتی ہے۔یہ پیش رفت اُس وقت سامنے آئی ہے جب سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان طے پانے والا جوہری معاہدہ (جے سی پی او اے) ختم کر کے ایران پر سخت اقتصادی پابندیاں دوبارہ نافذ کر دی تھیں۔ ٹرمپ انتظامیہ نے ایران پر زیادہ دباؤ ڈالنے کے لیے عسکری کارروائی کی دھمکی بھی دی تھی۔ایران کا مؤقف رہا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام مکمل طور پر پُرامن مقاصد کے لیے ہے، لیکن بین الاقوامی ادارے آئی اے ای اے کی رپورٹوں کے مطابق ایران نے یورینیئم کی افزودگی میں نمایاں اضافہ کیا ہے اور 60 فیصد تک خالص مواد جمع کر چکا ہے، جو نظریاتی طور پر ایٹمی ہتھیار بنانے کے لیے ابتدائی قدم تصور کیا جاتا ہے۔
امریکی انٹیلی جنس کے مطابق ایران تیزی سے اس مقام کے قریب پہنچ رہا ہے جہاں وہ چند مہینوں میں ایک ابتدائی ایٹمی ڈیوائس تیار کر سکتا ہے، حالاں کہ مکمل ہتھیار سازی میں ابھی وقت لگ سکتا ہے۔ماضی میں ایران پر عالمی سطح پر سخت اقتصادی پابندیاں عائد کی گئی تھیں جن کے نتیجے میں ایرانی معیشت کو شدید نقصان پہنچا، مہنگائی میں اضافہ ہوا اور قومی کرنسی زوال کا شکار ہوئی۔2015میں چھ عالمی طاقتوں اور ایران کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا تھا جس کے تحت ایران کے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے بدلے میں اس پر سے کئی اقتصادی پابندیاں ہٹائی گئی تھیں۔ تاہم ٹرمپ انتظامیہ نے اسے ناکافی قرار دے کر ختم کر دیا، جس کے بعد خطے میں کشیدگی بڑھی۔اب جب کہ دوبارہ مذاکرات کی بات ہو رہی ہے، ایران کا کہنا ہے کہ وہ امریکہ سے براہِ راست بات چیت کے لیے تیار ہے، بشرطیکہ واشنگٹن عسکری دھمکیاں ترک کرے۔ ایران کے وزیر خارجہ کے مطابق مذاکرات عمان میں منعقد ہوں گے اور ممکنہ طور پر بالواسطہ ہوں گے۔
اس سارے منظرنامے پر اسرائیل نے سخت ردعمل دیا ہے، کیوں کہ وہ ایران کے جوہری ارادوں پر ہمیشہ سے شکوک کا اظہار کرتا آیا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نے زور دیا ہے کہ صرف وہی معاہدہ قابلِ قبول ہوگا جس میں ایران اپنے جوہری عزائم سے مکمل طور پر دستبردار ہو جائے۔دوسری جانب یہ بھی واضح ہے کہ اگر ایران پر حملہ کیا گیا تو وہ جوابی کارروائی سے گریز نہیں کرے گا، جو نہ صرف اسرائیل بلکہ خلیجی ممالک میں امریکی اثاثوں کو بھی نشانہ بنا سکتی ہے۔خطے کی نازک صورتحال اور بڑی طاقتوں کے درمیان بڑھتی کشیدگی کے باعث یہ مذاکرات نہایت اہمیت اختیار کر چکے ہیں، کیونکہ ان کے نتائج خطے کی سلامتی اور مستقبل پر گہرا اثر ڈال سکتے ہیں۔