سپریم کورٹ میں وقف ترمیمی قانون چیلنج: 16 اپریل کو سماعت مقرر

وقف ترمیمی قانون کے خلاف جمعیت علماء، AIMIM سمیت 9 فریقین کی عرضیوں پر سپریم کورٹ 16 اپریل کو سماعت کرے گی؛ اپوزیشن نے قانون کو اقلیتی حقوق پر حملہ قرار دیا۔
سپریم کورٹ کی سہ رکنی بینچ، جس میں چیف جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس سنجے کمار اور جسٹس کے وی وشواناتھن شامل ہیں، 16 اپریل کو وقف (ترمیمی) قانون کے خلاف دائر کی گئی 9 عرضیوں پر سماعت کرے گی۔ ان عرضیوں میں جمعیت علماء ہندکانگریس، عآپ اور مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) جیسی کئی پارٹی اور تنظیموں کی درخواستیں شامل ہیں، جو اس قانون کو چیلنج کر رہی ہیں۔بی جے پی کی موجودہ حکومت نے لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں اپوزیشن کی شدید مخالفت کے باوجود وقف (ترمیمی) بل کو اکثریتی ووٹوں سے منظور کروا کر قانون کی شکل دی۔ اس قانون میں متعدد متنازعہ ترامیم شامل ہیں، جن میں وقف بورڈز میں غیر مسلم اراکین کی شمولیت اور حکومت کو متنازعہ وقف املاک کی ملکیت کے فیصلے کا اختیار دینا شامل ہے۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ ان تبدیلیوں کا مقصد بدعنوانی کو کم کرنا اور شفافیت کو بڑھانا ہے۔ تاہم، ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ ترامیم مسلمانوں کے مذہبی حقوق میں مداخلت کے مترادف ہیں اور اس سے تاریخی مساجد اور دیگر مذہبی املاک کی ضبطی کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔
اپوزیشن جماعتوں، بشمول کانگریس، ترنمول کانگریس، سماج وادی پارٹی، اور اے آئی ایم آئی ایم، نے اس بل کی شدید مخالفت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ قانون مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں غیر ضروری مداخلت ہے اور اقلیتی حقوق کو کمزور کرتا ہے۔ کانگریس کے رہنما کے سی وینوگوپال نے اس بل کو “آمرانہ” قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ مذہبی آزادی اور وفاقی نظام پر حملہ ہے۔ اے آئی ایم آئی ایم کے صدر اسد الدین اویسی نے اسے “امتیازی، من مانی اور مسلمانوں کے خلاف” قرار دیا۔
اس بل کی منظوری کے بعد، مسلم تنظیموں اور اپوزیشن جماعتوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے تاکہ اس قانون کو چیلنج کیا جا سکے۔ ان کا مؤقف ہے کہ یہ قانون آئینی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے اور اقلیتوں کے مذہبی معاملات میں غیر ضروری مداخلت ہے۔ سپریم کورٹ کی 16 اپریل کو ہونے والی سماعت میں ان عرضیوں پر غور کیا جائے گا، جو اس معاملے میں ایک اہم پیش رفت ہوگی۔