ایران اور امریکہ کے درمیان براہِ راست جوہری مذاکرات

امریکہ اور ایران کے درمیان اعلیٰ سطحی براہِ راست جوہری مذاکرات 12 اپریل کو عمان میں ہوں گے، جسے دونوں جانب ایک بڑے موقع اور امتحان کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
واشنگٹن / تہران — عالمی سفارتی حلقوں کی نظریں ایک بار پھر ایران اور امریکہ کے تعلقات پر مرکوز ہو گئی ہیں، جہاں دونوں ممالک کے درمیان براہِ راست جوہری مذاکرات کا امکان روشن ہو گیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ یہ اہم ملاقات سنیچر، 12 اپریل کو ہونے جا رہی ہے۔صدر ٹرمپ نے پیر کے روز وائٹ ہاؤس میں اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامن نتن یاہو سے ملاقات کے بعد اس پیش رفت کا انکشاف کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ یہ بات چیت “انتہائی اعلیٰ سطح،، پر ہو گی اور اگر سب کچھ درست سمت میں چلا تو ایک معاہدہ طے پانے کی امید ہے۔ تاہم انھوں نے یہ انتباہ بھی دیا کہ اگر مذاکرات کسی نتیجے پر نہ پہنچے تو یہ ایران کے لیے “بہت برا دن،،ثابت ہو سکتا ہے۔ایران کی جانب سے بھی مذاکرات کی تصدیق کر دی گئی ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر اپنے پیغام میں کہا کہ بات چیت عمان میں ہو گی اور یہ ایک “بڑا موقع اور بڑا امتحان،،دونوں ہے۔ ان کا کہنا تھا، “گیند اب امریکہ کے کورٹ میں ہے۔،،
یاد رہے کہ گزشتہ ماہ ایران کے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای نے امریکہ کی براہِ راست مذاکرات کی پیشکش کو مسترد کر دیا تھا، جس کے بعد صدر ٹرمپ نے ایران کے خلاف ممکنہ فوجی کارروائی کی دھمکی بھی دی تھی۔مارچ کے دوران، صدر ٹرمپ نے متحدہ عرب امارات کے ایک ثالث کے ذریعے ایران کی قیادت کو خط لکھ کر اپنی مذاکراتی آمادگی ظاہر کی تھی، تاہم ایران نے اُس وقت اس پیشکش کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا، اگرچہ تیسرے فریق کے ذریعے بات چیت کی گنجائش موجود رہی۔
وائٹ ہاؤس میں گفتگو کرتے ہوئے اسرائیلی وزیرِ اعظم نتن یاہو نے بھی کہا کہ اسرائیل اور امریکہ اس بات پر متفق ہیں کہ ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے ہر صورت روکا جانا چاہیے۔ اُن کا کہنا تھا، “اگر یہ مقصد سفارتی ذرائع سے حاصل ہو سکے، جیسا کہ لیبیا کے ساتھ ہوا، تو یہ ایک مثبت قدم ہو گا،،
صدر ٹرمپ نے مزید کہا کہ مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں ایران کو “بڑے خطرے،،کا سامنا ہو سکتا ہے، تاہم انھوں نے اس بارے میں مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں کہ مذاکرات کس سطح پر ہوں گے یا اس میں کون سے عہدیدار شریک ہوں گے۔اس اہم پیش رفت نے خطے میں سیاسی درجہ حرارت کو ایک بار پھر بڑھا دیا ہے، جب کہ عالمی برادری ان مذاکرات کی کامیابی کی امید لگائے ہوئے ہےجو مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی کو کم کرنے میں فیصلہ کن کردار ادا کر سکتے ہیں۔