سیاسی بصیرت

وقف ترمیمی بل: ناجائز قابضین کے لیے لمحۂ فکریہ

محمد شہباز عالم مصباحی
ایڈیٹر ان چیف النور ٹائمز

ہندوستان میں وقف املاک کا مسئلہ عرصۂ دراز سے ایک سنگین معاملہ بنا ہوا ہے۔ حال ہی میں راجیہ سبھا اور لوک سبھا سے وقف ترمیمی بل کی منظوری کے بعد یہ مسئلہ ایک نئے دور میں داخل ہو چکا ہے۔ جو افراد یا ادارے وقف املاک پر ناجائز قبضہ جمائے بیٹھے ہیں، ان کے لیے یہ ایک انتباہ ہے کہ وہ ہوش کے ناخن لیں اور ان املاک کو مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے فوری طور پر خالی کر دیں۔ بصورتِ دیگر، اس بل کے نفاذ کے بعد نہ صرف قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا بلکہ ذلت اور جگ ہنسائی بھی مقدر بن جائے گی۔
وقف املاک کا تحفظ: ملت کی ترقی کا زینہ:
ہندوستان میں تقریباً 9.4 لاکھ ایکڑ اراضی وقف کے تحت ہیں، جن کی مالیت تقریباً ڈیڑھ لاکھ کروڑ روپے بتائی جاتی ہے۔ اگر ان املاک کا صحیح استعمال کیا جائے تو یہ ملتِ اسلامیہ کے لیے ترقی اور خوشحالی کی نئی راہیں کھول سکتا ہے۔ بدقسمتی سے، کئی دہائیوں سے یہ املاک ناجائز قبضے اور بدانتظامی کا شکار ہیں۔ وقف املاک کو آزاد کروا کر ان کی آمدنی کو مسلمانوں کی تعلیمی، طبی، اور رفاہی ضروریات کے لیے بروئے کار لانا ناگزیر ہو چکا ہے۔
وقف املاک کے صحیح مصارف:
اگر ان املاک کو مناسب طریقے سے استعمال کیا جائے تو اس سے درج ذیل شعبوں میں زبردست پیش رفت ممکن ہو سکتی ہے:

  1. یونیورسٹیاں اور کالجز: وقف املاک کی آمدنی سے مسلمانوں کے لیے معیاری تعلیمی ادارے قائم کیے جا سکتے ہیں، جہاں جدید تعلیم اور دینی ماحول دونوں کا حسین امتزاج فراہم ہو۔
  2. جدید مدارس: وقت کی سب سے اہم ضرورت یہ ہے کہ ہم وقف املاک پر جدید طرز کے دینی مدارس قائم کریں، جہاں روایتی اسلامی علوم کے ساتھ ساتھ جدید سائنسی، تکنیکی اور عصری تعلیم دی جائے۔ ایسے مدارس میں کمپیوٹر، انگریزی، سوشل سائنس، سائنس و ریاضی جیسے مضامین کو دینی نصاب کے ساتھ مربوط کیا جائے تاکہ فارغ التحصیل طلبہ نہ صرف دین کے ماہر ہوں بلکہ دنیاوی میدان میں بھی باوقار مقام حاصل کر سکیں۔ ان مدارس کو جدید سہولیات، لائبریری، لیب اور ای لرننگ کی خدمات سے آراستہ کیا جائے تاکہ طلبہ عالمی سطح پر مقابلے کے اہل بن سکیں۔ وقف اراضی ان مدارس کے قیام کے لیے نہایت موزوں اور دستیاب وسائل کا بہترین مصرف ہے۔
  3. اعلیٰ تعلیم کے لیے اسکالرشپس: ملت کے ہونہار اور مستحق طلبہ و طالبات کے لیے وقف املاک کی آمدنی سے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے وظائف (اسکالرشپس) فراہم کیے جا سکتے ہیں۔ کئی باصلاحیت مسلم نوجوان مالی وسائل کی کمی کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اگر وقف فنڈز کا ایک معقول حصہ اسکالرشپس کے لیے مختص کیا جائے تو مسلم طلبہ کو ملک اور بیرونِ ملک کی بہترین یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملے گا، جس سے ملت میں تعلیمی شعور اور ترقی کا رجحان بڑھے گا۔
  4. شفا خانے: وقف املاک سے حاصل شدہ وسائل کے ذریعے جدید ہسپتال اور طبی مراکز قائم کیے جا سکتے ہیں، جہاں غریب اور مستحق مریضوں کو مفت یا سستی طبی سہولیات فراہم کی جا سکیں۔
  5. لنگر خانے: ضرورت مندوں اور غریب عوام کے لیے کھانے کی مفت سہولت فراہم کرنے کے لیے وقف کی اراضی پر لنگر خانے قائم کیے جا سکتے ہیں۔
  6. سرائے: مختلف شہروں اور زیارت گاہوں پر مسافروں اور زائرین کے لیے آرام دہ سرائے تعمیر کی جا سکتی ہیں تاکہ وہ کم خرچ میں قیام کر سکیں۔
    ناجائز قابضین کے لیے وارننگ:
    وقف ترمیمی بل کے پاس ہونے کے بعد حکومت کے پاس اب یہ اختیار ہے کہ وہ ناجائز قابضین کے خلاف سخت کارروائی کرے۔ جو لوگ ابھی تک ان املاک کو ذاتی ملکیت سمجھ کر قابض ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ خود ہی ان املاک کو چھوڑ دیں اور ملت کی فلاح و بہبود میں اپنا کردار ادا کریں۔ بصورتِ دیگر، انہیں قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا، جو ان کے لیے ذلت اور رسوائی کا باعث بنے گی۔
    نتیجہ:
    وقف املاک کا تحفظ اور اس کا بہتر استعمال ملتِ اسلامیہ کی ترقی کے لیے ایک اہم سنگِ میل ثابت ہو سکتا ہے۔ اس بل کی منظوری کے بعد مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ وقف املاک کو مِلِّی بنائیں اور ان کے مثبت استعمال کے لیے عملی اقدامات کریں۔ ناجائز قابضین کو بھی سوچنا چاہیے کہ وقت ان کے ہاتھ سے نکل چکا ہے، اب اگر وہ خود اپنی اصلاح نہیں کرتے تو قانون اپنی گرفت مضبوط کر لے گا اور ان کے لیے سوائے پشیمانی کے کچھ باقی نہیں رہے گا۔ وقف اراضی کے ذریعے ہم قوم کے تعلیمی، اخلاقی اور معاشی استحکام کی نئی بنیاد ڈال سکتے ہیں، جس کے لیے جدید دینی مدارس، اعلیٰ تعلیمی وظائف اور دیگر رفاہی منصوبوں کا قیام اولین ترجیح ہونی چاہیے۔

admin@alnoortimes.in

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

سیاسی بصیرت

ٹی ایم سی رائے گنج لوک سبھا الیکشن کیوں نہیں جیت پاتی؟

تحریر: محمد شہباز عالم مصباحی رائے گنج لوک سبھا حلقہ مغربی بنگال کی ایک اہم نشست ہے جس کی سیاسی
سیاسی بصیرت

مغربی بنگال میں کیا کوئی مسلمان وزیر اعلیٰ بن سکتا ہے؟

محمد شہباز عالم مصباحی سیتل کوچی کالج، سیتل کوچی، کوچ بہار، مغربی بنگال مغربی بنگال، جو ہندوستان کی سیاست میں