امریکی تجارتی پالیسی میں سختی: بھارت کے لیے چیلنج یا نئی راہ؟

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت سے درآمدات پر 26 فیصد جوابی ٹیکس عائد کر دیا، جس سے تجارتی خسارے میں اضافے کا خدشہ ہے، تاہم ماہرین اسے بھارت کے لیے نئے مواقع کی شکل میں بھی دیکھ رہے ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2 اپریل کو مختلف ممالک پر “ریسیپروکل ٹیریف،،(جوابی ٹیکس) عائد کرنے کا اعلان کیا، جس کے بعد عالمی شیئر مارکیٹس میں ہلچل مچ گئی۔ اس فیصلے کے تحت مختلف ممالک پر کم از کم 10 فیصد اور زیادہ سے زیادہ 49 فیصد تک ٹیکس عائد کیا جائے گا، جب کہ بھارت سے امریکہ کو برآمد ہونے والی اشیاء اور خدمات پر 26 فیصد ٹیرف لگایا گیا ہے۔ اس فیصلے نے عالمی معیشت پر اثرات ڈالنے کے ساتھ ساتھ بھارت کے لیے بھی کئی سوالات کو جنم دیا ہے کہ آیا یہ صورتحال بحران ہے یا بھارت کے لیے ایک نیا موقع پیدا کر سکتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ چین اس وقت امریکہ کے ساتھ تجارتی جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا، کیوں کہ اس کی معیشت زیادہ تر برآمدات پر منحصر ہے۔ چین ہر سال 600 بلین ڈالر کی اشیاء امریکہ کو برآمد کرتا ہے، اور اگر وہ جوابی کارروائی کرتا ہے تو اسے بھی اتنا ہی نقصان ہوگا جتنا امریکہ کو ہوگا۔ امریکی معیشت بھی چینی مصنوعات پر کافی حد تک انحصار کرتی ہے۔ والمارٹ جیسی بڑی کمپنیاں پہلے ہی کہہ چکی ہیں کہ ان کی 70 فیصد مصنوعات چین سے آتی ہیں اور نئے ٹیرف کی وجہ سے ان کی فروخت متاثر ہو سکتی ہے جس سے امریکہ میں مہنگائی میں اضافہ متوقع ہے۔
بھارت کے لیے یہ صورتحال ایک نئے موقع کے طور پر بھی دیکھی جا رہی ہے۔ چوں کہ چین پر بھارت کے مقابلے میں 20 فیصد زیادہ ٹیرف عائد کیا گیا ہے، اس لیے بھارت کے پاس امریکی منڈی میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کا موقع ہے۔ ماہرین کے مطابق، اگر بھارتی حکومت تجارتی قوانین کو مزید آسان بنائے اور چھوٹے و درمیانے درجے کی صنعتوں کو فروغ دے، تو بھارت عالمی معیشت میں ایک اہم کھلاڑی کے طور پر ابھر سکتا ہے۔ اگر بھارت اور امریکہ کے درمیان ستمبر تک آزاد تجارتی معاہدہ (Free Trade Agreement) طے پا جاتا ہے، تو اس کے امکانات مزید روشن ہو سکتے ہیں۔