ایران اور امریکہ آمنے سامنے: ٹرمپ کی دھمکیاں، تہران کا انکار

امریکہ اور ایران کے درمیان جوہری معاہدے پر کشیدگی بڑھ گئی، ٹرمپ کی جنگی دھمکیوں کے جواب میں تہران نے براہ راست مذاکرات سے انکار کر دیا۔
امریکہ اور ایران ایک بار پھر آمنے سامنے نظر آ رہے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جہاں ایک طرف ایران کو دھمکی دیتے ہوئے نیوکلیئر ڈیل پر دستخط کرنے کو کہا ہے، وہیں اب ایران نے بھی اس پر اپنا ردعمل ظاہر کیا ہے۔ ایران کے صدر مسعود پیزشکیان نے جوہری پروگرام کے حوالے سے امریکہ کے ساتھ براہ راست مذاکرات سے انکار کر دیا ہے۔ تاہم، اپنی کابینہ سے خطاب کے دوران، مسعود نے اس بات کے اشارے دیے کہ تہران امریکہ کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات کے لیے تیار ہے۔
این بی سی نیوز کے مطابق، ٹرمپ نے ایک انٹرویو میں کہا کہ اگر ایران معاہدہ نہیں کرتا تو امریکہ ایسی بمباری کرے گا جو پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ ایران پر مزید معاشی پابندیاں بھی لگائی جائیں گی۔ ٹرمپ کی یہ دھمکی ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب تہران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے واشنگٹن اور ایران کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس سے پہلے مارچ میں، ٹرمپ نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو خط لکھ کر خبردار کیا تھا کہ تہران کو یا تو مذاکرات پر آمادہ ہونا پڑے گا یا پھر فوجی تصادم کے لیے تیار رہنا ہوگا۔
قابلِ ذکر ہے کہ 1979 میں ایرانی انقلاب کے بعد سے ایران اور امریکہ کے تعلقات کشیدہ چلے آ رہے ہیں۔ یرغمالی بحران کے بعد دونوں ممالک نے آپس میں سفارتی تعلقات ختم کر لیے تھے۔ 1980 کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان کوئی باضابطہ سفارتی روابط نہیں رہے۔ امریکہ نے 1995 میں ایران کے ساتھ تجارتی تعلقات پر بھی پابندی عائد کر دی تھی۔
مزید برآں، امریکہ نے اسرائیل کو ایران اور اس کے پراکسی گروہوں کے خلاف کارروائی کا اختیار دے دیا ہے۔ اسرائیل اب بغیر امریکہ سے پوچھے ایران اور اس کے حامی گروپوں پر حملہ کر سکتا ہے۔ ٹرمپ نے نہ صرف ایران کے ساتھ جنگ کے دروازے کھول دیے ہیں بلکہ وہ آیت اللہ خامنہ ای کے خلاف براہ راست محاذ آرائی کا اعلان بھی کر رہے ہیں۔