سیاسی بصیرت

ناگ پور فساد کا اصل مجرم کون؟

معصوم مرادآبادی

یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ فساد ہمیشہ سیاسی مقاصد کے تحت بھڑکائے جاتے ہیں، مگر عام طور پر وہ لوگ بے نقاب نہیں ہو پاتے جو کسی بھی فساد کی انجینئر نگ کرتے ہیں، لیکن ناگپور کے حالیہ فساد کو شہ دینے کا کام اعلیٰ عہدوں پر پر بیٹھے ہوئے جن لوگوں نے کیا تھا ، وہ پہلی ہی نظر میں بے نقاب ہو گئے ۔ یہی وجہ ہے کہ اور نگزیب کے نام پر طوفان برپا کرنے والوں کے بارے میں خود آرایس ایس کو یہ کہنا پڑا کہ موجودہ دور میں اور نگزیب کی کوئی معنویت نہیں ہے، اس لیے اس پر ہنگامہ نہ برپا کیا جائے ۔ اب یہ پوری طرح واضح ہو گیا ہے کہ ناگپور کو آگ لگانے کا کام وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل کے کارکنوں نے کیا تھا جو مغل شہنشاہ اور نگزیب کی قبر کو مسمار کرنے کے مطالبات میں وہاں احتجاج کر رہے تھے۔ انھوں نے پہلے اور نگزیب کی ایک علامتی قبر بنائی اور پھر اس پر درگاہوں پر چڑھائی جانے والی ایک چادر چڑھائی جس پر کلمہ طیبہ درج تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس چادر کو پہلے روندا گیا اور پھر اسے علامتی قبر کے ساتھ نذر آتش کر دیا گیا۔ مسلمانوں میں یہ افواہ پھیلی کہ قرآن سوزی کی کر یہہ حرکت انجام دی گئی ہے۔ یہیں سے حالات بے قابو ہوئے اور بڑے پیمانے پر آگ زنی اور لوٹ مار کا بازار گرم ہو گیا۔ حکومت نے اسے منصوبہ بند سازش قرار دے کر مسلمانوں کے خلاف جارحانہ کارروائی شروع کر دی ہے۔ یہاں تک کہ اس کے تار بنگلہ دیش تک جوڑ دیئے گئے ہیں اور این آئی اے کی ایک ٹیم تحقیقات کے لیے ناگپور پہنچ چکی ہے۔
پولیس نے بارہ سولوگوں کے خلاف مقدمات درج کئے ہیں اور جن چھ مسلم نو جوانوں پر غداری کا مقدمہ قائم کر کے جیل بھیج دیا ہے، ان میں ایک مقامی سماجی کارکن فہیم خان بھی ہیں جنھوں نے سب سے پہلے پولیس اسٹیشن جا کر یہ مطالبہ کیا تھا کہ وشو ہند پر یشد اور بجرنگ دل کے کارکنوں کی انتہائی اشتعال انگیز حرکت پر قانونی کارروائی کی جائے۔ پولیس نے بعد کو بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد کے ارکان کے خلاف اتنی معمولی دفعات میں مقدمہ درج کیا کہ انھیں شام کو ہی تین تین ہزار روپے میں ضمانت دے کر اسی باعزت طریقے سے گھر بھیج دیا گیا جس با عزت طریقہ سے گرفتار کیا گیا تھا۔ یہی دراصل موجودہ سیاسی نظام کی خوبی ہے کہ اس میں اصل مجرموں کی پشت پناہی کی جاتی ہے جب کہ بے گناہوں کو سنگین مقدمات میں ملوث کر کے برسوں کے لیے جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ پولیس اب تک سو سے زیادہ مسلمانوں کے گھروں پر دبش دے کر انھیں گرفتار کر چکی ہے۔ یہ وہ مسلمان ہیں جو رمضان کے مہینے میں تراویح پڑھ پڑھ کر اپنے گھروں کو پہنچے تھے۔ سابق ممبر اسمبلی انیس احمد کا کہنا ہے کہ تمام پڑھے لکھے اور اعلی تعلیم یافتہ نو جوانوں کو گر فتار کیا گیا ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
ناگپور شہر کی تین سو سالہ تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ وہاں کرفیو نافذ کیا گیا ہے۔ جی ہاں یہ وہی ناگپور ہے جہاں آرایس ایس کا ہیڈ کوارٹر ہے اور جو صوبائی وزیر اعلیٰ دیوندر فرد نویس کا اسمبلی حلقہ انتخاب ہے۔ اتنا ہی نہیں یہ بی جے پی کے سیکولر فیس، نتن گڈکری کا پارلیمانی حلقہ بھی ہے۔ ناگپور اپنے سنتروں کے لیے مشہور ہے اور ان سنتروں کی سب سے بڑی شناخت ان کا زعفرانی رنگ ہے۔ اسی زعفرانی رنگ میں ملبوس بہادروں کی ایک فوج آج کل پورے ملک میں ایک قبر سے لڑ رہی ہے۔ ظاہر ہے جو لوگ زندہ لوگوں سے لڑنے کی ہمت نہیں رکھتے وہ قبروں سے لڑتے ہیں اور اسی کو اپنی بہادری بھی سمجھتے ہیں ۔ یہ قبر کسی عام آدمی کی نہیں مغل بادشاہ اور نگزیب کی ہے، جو مہاراشٹر کے خلد آباد علاقہ میں واقع ہے۔ پچھلے ماہ جب میں نے اورنگ آباد کے سفر کے دوران اس قبر پر حاضری دی تھی تو یہاں ایک پرائیویٹ سیکورٹی ایجنسی کے دو جوان تعینات تھے جن کی دلچسپی اس قبر کے تحفظ سے زیادہ اپنے موبائل فون میں تھی۔ یہ قبر محکمہ آثار قدیمہ کے تحت محفوظ مقامات کے زمرے میں آتی ہے اور اس کے تحفظ کی ذمہ داری بھی اس پر ہے۔ لہٰذا تازہ تنازعہ کے بعد اس قبر کی سیکورٹی بہت سخت کر دی گئی ہے۔ قبر کے احاطہ کو نہ صرف ٹین کی چادروں چادروں ۔ سے ڈھک دیا دیا گیا گیا۔ ہے بلکہ اس کے آس پاس ڈرون اڑانے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے ۔ اب وہاں پولیس کے پچاس سے زائد جوان پہرہ دے رہے ہیں۔ فروری کے شروع میں جب مجھے اور نگزیب عالمگیر کی قبر دیکھنے کی جستجو وہاں لے گئی تھی تو صورتحال آج جیسی نہیں تھی ، ہاں کچھ مجاوروں نے تصویرشی سے باز رہنے کے لیے ضرور کہا تھا مگر پھر بھی میں نے اور نگزیب کی قبر اور اس کے احاطے میں چند تصویر میں اتروائیں۔ اورنگ زیب کی قبر پر اس قدر سیکورٹی تعینات کرنے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ کئی زعفرانی عناصر نے اس قبر کو مسمار کرنے کی دھمکیاں دی ہیں اور زعفرانی حکومت پر خود اپنے ہی عناصر کا دباؤ شدید تر ہے، لیکن وزیر اعلیٰ فرد نویس نے اسمبلی میں دل پر پتھر رکھ کر یہ اعلان کیا ہے کہ اورنگ زیب کی قبر محکمہ آثار قدیمہ کے تحت ایک محفوظ یادگار ہے۔ نہ تو اسے مسمار کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ہٹایا جا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہا کہ کچھ بھی ہو جائے ہم اور نگ زیب کی تعریف و توصیف برداشت نہیں کریں گے ۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو اور نگ زیب کی آڑ میں مسلمانوں کے خلاف نفرت اور عداوت کو فروغ دینے میں سب سے زیادہ ہاتھ وزیر اعلیٰ دیویندر فرد نویں اور ان کے نائب ایکنا تھ شندے ہی کا ہے۔ ریاستی وزیر نارائن رانے اور بعض دیگر لیڈروں نے بھی آگ میں گھی ڈالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ دراصل اور نگزیب کو سب سے بڑا موضوع بنانے کے پیچھے مہاراشٹر سر کار منشا یہ ہے کہ کسی طرح ان ناکامیوں کی پردہ پوشی کی جائے جو ریاستی حکومت کو در پیش ہیں۔ مہاراشٹر میں اس وقت فرنویس سرکار کو کئی چیلنجوں کا۔ کا سامنا ہے اور عوام ان سے سوال پوچھ ن سے سوال پوچھ رہے ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ کسانوں کی خودکشی کے بڑھتے ہوئے واقعات کا ہے۔ بلدیاتی انتخابات بھی سر پر ہیں۔ ایسے میں اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے فرو نویس سرکار نے اور نگزیب کی تعین سو سال سے زیادہ پرانی قبر میں منہ چھپانے کی ناکام کوشش کی ہے۔ اور نگ زیب کی قبر کے بارے میں تفصیلات میں نے اپنے گزشتہ مضمون میں بھی بیان کی تھیں۔ دراصل اور نگزیب کی زندگی کا آخری حصہ مہاراشٹر میں فتوحات کے دوران گزرا اور 3 مارچ 1707 میں احمد نگر میں ان کی موت ہوئی ۔ اپنی موت سے قبل انھوں نے اپنے بیٹے کو وصیت کی تھی کہ انھیں آٹھویں صدی کے صوفی بزرگ زین الدین شیرازی کے پہلو میں دفن کیا جائے جن کا مزار اورنگ آباد سے تیس کلومیٹر دور خلد آباد میں واقع ہے۔ اورنگزیب اپنی زندگی میں صوفی بزرگ زین الدین شیرازی سے روحانی تعلق رکھتے تھے اور اکثر ان کے مزار پر حاضری دیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے خود کو صوفی زین الدین کی پائینتی میں دفن ہونے کی وصیت کی اور یہ بھی کہا تھا کہ ان کی قبر کچی ہی رکھی جائے اور اس پر کوئی مزار یا مقبرہ تعمیر نہ کیا جائے ۔ روایت ہے کہ ان کی وصیت کے مطابق ان کی تدفین پر چودہ روپے بارہ آنے کی وہ رقم خرچ کی گئی جو انھوں نے ٹوپیاں سی کر جمع کی تھی۔ دوسو سال تک یہ قبر کچھی ہی رہی لیکن 1921 میں لارڈ کرزن کی خواہش پر نظام حیدر آباد نے اس قبر کے گرد سنگ مرمر کا احاطہ بنوایا لیکن قبر کا حصہ پھر بھی کچا ہی چھوڑ دیا گیا۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ اور نگزیب کی موت کو سوا تین سو سال گزرنے کے بعد ان کی اسی قبر کو سیاسی ریشہ دوانیوں کا مرکز بنایا جا رہا ہے۔ اس کا آغاز پچھلے دنوں ریلیز ہوئی ہندی فلم چھادا سے ہوا ہے جس میں اور نگزیب کا کردار اس حد سخ کر دیا گیا ہے کہ اسے دیکھ کر لوگ جنونی کیفیات سے دو چار ہو رہے ہیں۔ خود وزیر اعلیٰ فرد نویس نے ناگپور کی صورتحال پر اسمبلی میں یہ تسلیم کیا ہے کہ فلم چھاوا دیکھ کر لوگوں کے جذبات برانگیختہ ہوئے ۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ کہ ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی خود اس فلم کی تعریف کر چکے ہیں چکے ہیں اور اسے حقیقت پسند بھی قرار دے چکے ہیں ۔ یہاں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ جب حکومت کو یہ معلوم تھا کہ یہ فلم لوگوں کے جذبات مشتعل کر سکتی ہے تو اسے ریلیز کرنے کی اجازت کیوں دی گئی۔ نہ صرف اجازت دی گئی بلکہ زعفرانی بریگیڈ نے جگہ جگہ اس کے شو بھی کرائے اور اب بھی اس شر انگیز فلم کی نمائش جاری ہے۔ وزیر اعلیٰ فرد نویں کے پاس مہاراشٹر کے وزیر داخلہ کا بھی چارج ہے اور اس اعتبار سے وہ اپنے صوبے میں نظم ونسق قائم رکھنے کے بھی ذمہ دار ہیں ، لہٰذا خود اپنے ہی حلقہ انتخاب میں امن وقانون برقرار نہ رکھنے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے انھیں فوری طور پر مستعفی ہو جانا چاہئے ۔

admin@alnoortimes.in

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

سیاسی بصیرت

ٹی ایم سی رائے گنج لوک سبھا الیکشن کیوں نہیں جیت پاتی؟

تحریر: محمد شہباز عالم مصباحی رائے گنج لوک سبھا حلقہ مغربی بنگال کی ایک اہم نشست ہے جس کی سیاسی
سیاسی بصیرت

مغربی بنگال میں کیا کوئی مسلمان وزیر اعلیٰ بن سکتا ہے؟

محمد شہباز عالم مصباحی سیتل کوچی کالج، سیتل کوچی، کوچ بہار، مغربی بنگال مغربی بنگال، جو ہندوستان کی سیاست میں