وقف بل کے خلاف حوصلہ بخش اتحاد

سہیل انجم
ایک عرصے کے بعد دہلی کی معروف احتجاج گاہ جنتر منتر پر 17 مارچ کو ہمارا جانا ہوا۔ موقع تھا وقف ترمیمی بل کے خلاف آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے احتجاجی مظاہرے کا۔ یہ دیکھ کر اطمینان ہوا کہ رمضان کے مہینے میں بھی مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد نے مظاہرے میں حصہ لیا۔ تقریباً تمام مسلم تنظیموں اور جماعتوں کے رہنماوں نے اس میں شرکت کی۔ بیرون دہلی سے بھی بڑی تعداد میں لوگ پہنچے۔ حالاں کہ ایسی بھی اطلاعات ہیں کہ پولیس نے بیرون دہلی سے آنے والے بہت سے لوگوں کو روک دیا، ان کو دہلی آنے نہیں دیا۔ بہر حال جب تک تقریریں ہوتی رہیں لوگ دھوپ اور بھوک پیاس کی پروا کیے بغیر موجود رہے۔ لوگوں نے انتہائی صبر وضبط کا مظاہرہ بھی کیا۔ بعض استثناوں کو چھوڑ کر انتہائی معتدل اور غیر جذباتی تقریریں ہوئیں۔ جذباتی نعرہ بازی سے گریز کیا گیا۔ شرکاء انتہائی پر امن انداز میں آئے اور پر امن انداز میں منتشر ہو گئے۔ حالاں کہ عام طور پر مسلمانوں کے ایسے مظاہروں پر جوش و جذ بات حاوی ہو جاتے ہیں اور سنجیدگی کا کم کم مظاہرہ ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے بعض اوقات نظم و نسق کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے اور کہیں کہیں تشدد بھی ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ مظاہرہ انتہائی منظم، سنجیدہ اور کامیاب رہا۔ اپوزیشن جماعتوں کی بھی اچھی نمائندگی رہی۔ آدی واسی، دلت ، اوبی سی اور اقلیتی تنظیموں کے نمائندوں نے بھی شرکت کی۔ البتہ وقت کی قلت کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو بولنے کا موقع نہیں ملا۔ مسلم مقررین کے ساتھ ساتھ غیر مسلم مقررین نے بھی یہ کہتے ہوئے وقف ترمیمی بل کو مسترد کر دیا کہ حکومت کے اس اقدام کا مقصد اوقاف کی املاک پر قبضہ کرنا ہے۔ ایسے ماحول میں جب کہ اختلافی آوازوں کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہو اور حکومت کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو خاموش کرا دیا جاتا ہو، مسلم پرسنل لا بورڈ کی یہ جرأت مندی قابل ستائش ہے۔ گزشتہ دس برسوں کے دوران مسلمانوں کی کمرِ ہمت توڑنے کے لیے جانے کیسے کیسے حربے اختیار کیے گئے اور اب بھی کیے جا رہے ہیں۔ لہذا ایسے بہت سے مواقع آئے جب مسلمانوں کی مذہبی و سیاسی قیادت کو سامنے آنا چاہیے اور ظلم و نا انصافی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنی چاہیے تھی لیکن وہ اپنے عافیت کدوں میں خواب خرگوش کے مزے لوٹتی رہی۔ ایک وقت تھا جب نا انصافی کے خلاف مسلمان بڑی تعداد میں سڑکوں پر آتے رہے اور حکومت کے سامنے اپنے مطالبات رکھتے رہے ہیں۔ ان کوششوں کے مثبت نتائج بھی برآمد ہوتے رہے ہیں۔ لیکن موجودہ حکومت کا رویہ بالکل مختلف ہے۔ اس نے یہ طے کر رکھا ہے کہ وہ اپنے ایجنڈے پر کار بند رہے گی خواہ اس کے لیے عوام کے ساتھ نا انصافی سے ہی کیوں نہ کام لینا پڑے۔ اس کے اس اڑئیل رویے نے بھی اختلافی آوازوں کو دبایا کہ جب حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی تو پھر احتجاج سے کیا فائدہ۔ سی اے اے کے خلاف مثالی احتجاج ہوا تھا لیکن اس میں حصہ لینے والے کارکنوں کو جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ جن میں سے بیشتر اب بھی بند ہیں۔ اس صورت حال نے بھی مسلمانوں کو خاموش رہنے پر مجبور کر دیا تھا۔ اس خوف زدہ خاموشی سے ایسا تاثر ملتا تھا کہ انھوں نے نا انصافی کے خلاف احتجاج کرنے کی خو بھلا دی ہے۔ بالخصوص مسلمانوں کے اس رویے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی رہی کہ ماضی میں بورڈ سے وابستہ اور غیر وابستہ متعدد افراد کے کردار اور ان کے خلوص نیت پر سوالیہ نشان لگتارہا ہے۔ بعض پر بورڈ کے پلیٹ فارم سے اپنا ایجنڈہ چلانے کا الزام بھی لگایا جاتا رہا۔ ایسے لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ چند ٹکڑوں کے عوض پوری ملت کا سودا کرنے سے بھی نہیں جھجکتے۔ ملت کے سنجیدہ افراد کا یہ موقف رہا ہے کہ ایسےلوگوں کی نشاندہی کر کے ان کو الگ تھلگ کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن بہر حال جنتر منتر پر ہونے والے اس مظاہرے نے مسلمانوں کے اندر ایک نیا جذبہ پیدا کیا ہے۔ انھوں نے بورڈ کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے جس طرح اس میں شرکت کی اس سے یہ اندازہ لگانا دشوار نہیں کہ اگر اخلاص کے ساتھ بلایا جائے تو اس پر لبیک کہنے والوں کی کی نہیں ہے۔ بورڈ کے سنجیدہ افراد کو چاہیے کہ وہ اس معاملے پر حکومت کے نمائندوں سے بھی ملاقات کریں۔ لیکن مفاد پرست اور خود غرض افراد کو خود سے دور رکھیں۔ حالاں کہ حکومت سے ملنے کا بظاہر کوئی فائدہ نظر نہیں آتا۔ لیکن پھر بھی اس بات کا ثبوت دینے کے لیے کہ مسلمان مردہ قوم نہیں ہیں، ان میں زندگی کی تھوڑی بہت ہی سہی رمق باقی ہے ایسی کوشش ضرور کرنی چاہیے۔ اس کوشش میں ان اپوزیشن پارٹیوں کو بھی ساتھ رکھنا چاہیے جو اس مسئلے پر حکومت کے خلاف اور مسلمانوں کے ہم قدم ہیں۔ اسی دوران یہ بھی دیکھنے کو ملا کہ بعض ہندو تو وادی تنظیموں کے رہنماوں نے اس احتجاجی مظاہرے کی مخالفت کی۔ حالاں کہ یہ مظاہرہ ان کے خلاف نہیں تھا۔ جب کہ وقف بل پر مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے چیئر مین جگد مبیکا پال نے جو بیان دیا ہے اس سے ان کی جھنجلا ہٹ کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم نے اختلافی آوازوں کو بھی سنا ہے۔ لیکن سننے اور قبول کرنے میں فرق ہوتا ہے۔ انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ انھوں نے مسلمانوں کی تجاویز کو منظور کیا اور ان کو اپنی رپورٹ میں شامل کیا ہے یا نہیں۔ مسلم نمائندوں کا کہنا ہے کہ کمیٹی نے ان کی تجاویز پر کوئی غور نہیں کیا اور نہ ہی انھیں اپنی رپورٹ کا حصہ بنایا۔ جگد مبیکا پال نے جہاں ایک طرف جہاں یہ کہا کہ یہ جمہوری ملک ہے وہیں دوسری طرف اس مظاہرے کی مخالفت بھی کی۔ جب یہ ملک جمہوری ہے اور بالکل ہے تو پھر اپنے حقوق کے لیے جمہوری انداز میں آواز بلند کرنا کہاں سے غلط ہو گیا۔ ان کا الزام ہے کہ یہ سیاسی مظاہرہ ہے۔ حالاں کہ یہ خالص غیر سیاسی مظاہرہ تھا۔ کسی مظاہرے میں سیاست دانوں کی شرکت کا یہ مطلب نہیں کہ وہ سیاسی ہو گیا۔ اور اگر سیاست داں اس میں شریک ہوئے تب بھی اسے کیسے غلط کہا جا سکتا ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ابھی قانون منظور نہیں ہوا لہذا ابھی احتجاج کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ ان کو جو کچھ کہنا ہے منظور ہونے کے بعد کہیں۔ جناب ابھی احتجاج نہیں کیا جائے گا تو کب کیا جائے گا۔ جب قانون منظور ہو جائے گا تو احتجاج کرنے کا کیا فائدہ ہوگا۔ احتجاج کو دو فرقوں میں دشمنی پیدا کرنے سے بھی تعبیر کیا جا رہا ہے۔ جب کہ اس میں نہ تو کسی فرقے کے خلاف کوئی بات کہی گئی اور نہ ہی کسی پر کوئی الزام لگایا گیا۔ اسدالدین اویسی نے جے ڈی یو، ٹی ڈی پی اور ایل جے پی کے رہنماوں نتیش کمار، چندر بابونائیڈو اور چراغ پاسوان کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ بل کی حمایت کرنے پر انھیں معاف نہیں کیا جا سکتا۔ اس سے قبل یہ یقین دہانی کرائی جاتی رہی کہ ان کے رہنمابل کے خلاف ہیں اور اسے منظور نہیں ہونے دیں گے۔ ان پارٹیوں کے نمائندوں نے مسلم وفد سے ملاقات میں بھی یہ یقین دہانی کرائی تھی۔ دہلی میں منعقدہ مولانا ارشد مدنی کی ریلی میں تیلگو دیشم پارٹی کے ایک نمائندے نے اپنی تقریر میں بھی یہ یقین وہانی کرائی تھی۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ پارٹیاں خاموشی سے بل کی حمایت کر دیں گی۔ بورڈ کی جانب سے ان رہنماؤں پر دباؤ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ کوششیں کہاں تک کامیاب ہوگی کہا نہیں جاسکتا۔ آخر میں ہم یہ بھی کہنا چاہیں گے کہ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جہاں بہت سے غیر مسلموں نے وقف کی املاک پر ناجائز قبضہ کیا ہوا ہے وہیں بہت سے مسلمانوں نے بھی قبضہ کر رکھا ہے۔ اگر قبضہ ہٹانے کی کوشش کی جائے تو وہ لڑنے مرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں میں با شرع قسم کے افراد بھی شامل ہیں جو اٹھتے بیٹھتے دوسروں کو حلال حرام کی نصیحت کرتے رہتے ہیں۔ لیکن وہ اپنے دامن کو نہیں دیکھتے کہ وہ کتنا داغدار ہے۔ ایسے لوگوں کے خلاف بھی احتجاج کرنے اور ان کے قبضے سے وقف املاک کی واگزاری کے لیے جد و جہد کرنے کی ضرورت ہے۔