حضرت مفتی عبید الرحمٰن رشیدی:کچھ یادیں،کچھ باتیں

علامہ محمد احمد مصباحی
المَجْمعُ الاسلامی،مبارک پور ناظم تعلیمات جامعہ اشرفیہ مبارک پور
حضرت مفتی عبید الرحمٰن رشیدی علیہ الرحمہ دور طالب علمی ہی سے نمایاں اور ممتاز تھے۔ انھوں نے دار العلوم اشرفیہ مصباح العلوم مبارک پور میں فضیلت سے پہلے دوسال معقولات کی منتہی کتابوں کا درس لیا اور ۱۹۶۷ء میں فضیلت کی تکمیل کے بعد فراغت حاصل کی۔
اس کے کچھ ہی بعد علامہ ارشد القادری کی طلب پر فیض العلوم جمشید پور پہنچے۔وہاں اپنی پختہ علمی استعداد کے باعث تدریس میں ممتاز رہے۔فیض العلوم؛ شمس الہدیٰ بہار بورڈ پٹنہ سے ملحق تھا، اس لیےاس کے معاینے کےلیے بورڈ کے ڈائرکٹر آتے رہتے تھے۔ اس زمانے میں ڈائرکٹر جناب صفات احمد صاحب تھے جو عصری اور عربی دونوں ہی درس گا ہوں کے تعلیم یافتہ تھے۔ان کے معاینے میں نے پڑھے۔مدرسہ اور انتظامیہ کے کاموں کو بڑی باریکی سے دیکھتے اورجو خامیاں ان کی سمجھ میں آتیں انھیں واشگاف طور پر معاینے میں لکھ ڈالتے ۔ستائش اور تحسین شاذونادرہی کرتے،وہ مدرسین کی درس گاہوں میں جاکر تدریس کی سماعت بھی کرتے۔ ایک بار مفتی صاحب کی درس گاہ میں بھی بیٹھے اور معاینے میں ان کی تعلیم و تفہیم کی تعریف کی۔ ایک سخت گیر آدمی کے قلم سے مفتی صاحب کی ستائش دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی۔
اُسی دور میں علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ نے پٹنہ میں ادارۂ شرعیہ قائم کرنےکا منصوبہ بنایااور اس کے اصولِ قضا،طریقۂ کار اورطریقۂ تنفیذ وغیرہ سے متعلق ایک سوال نامہ مرتب کیا ،جس کا جواب حضرت مفتی صاحب نے بہت تحقیق اور بسط و تفصیل کے ساتھ رقم کیا۔ اس سے فقہ میں ان کی مہارت کا اندازہ ہوتا ہے ،جب کہ یہ مفتی صاحب کا ابتدائی دور تھا، فراغت کے بعد پہلا یا دوسرا سال تھا۔یہ جواب’’ جدید مسائل پر علما کی رائیں اور فیصلے‘‘ از مجلس شرعی جامعہ اشرفیہ مبارک پور میں شامل ہے ۔اس زمانے کے اکابر علما کے تصدیقی دست خط بھی اس فتوے پر ثبت ہیں ۔
بجر ڈیہہ بنارس میں غیر مقلدین سے اہل سنت کا تحریری مناظرہ ہوا۔غیر مقلدین نے مناظرے کی روداد شائع کی تو اس میں کچھ نئے اعتراضات شامل کیے۔اس کے رد میں مفتی صاحب نے اپنی کتاب’’ اختیار نبوت‘‘ تحریر کی ۔ اس میں غیر مقلدین کے اعتراضات کے جوابات اور اہل سنت کے دلائل بہت خوش اسلوبی سے پیش کیے ۔اس کتاب سے مفتی صاحب کی مناظرانہ مہارت اور بحث و استدلال کی قوت عیاں ہے ۔اس کتاب پر استاذ گرامی بحر العلوم مفتی عبد المنان اعظمی علیہ الرحمہ نے تقریظ لکھی ہے جس میں مفتی صاحب کی ماہرانہ بحثوں کی داد دی ہے ۔یہ کتاب کئی بار شائع ہوچکی ہے ۔
شارح بخاری مفتی محمد شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ جب انوار القرآن بلرام پور سے دارالعلوم نداے حق جلال پور(سابقہ ضلع فیض آباد) تشریف لائے تو مفتی صاحب کو تدریس کے لیے مدعو کیا،پھر جب ذی الحجہ ۱۳۹۶ھ میں شارح بخاری علیہ الرحمہ جامعہ اشرفیہ مبارک پور آئے تو مفتی صاحب ان کی جگہ شیخ الحدیث ہوئے ۔اُسی ذی الحجہ میں دار العلوم نداے حق میں بحیثیت استاذ میرا تقرر ہوا ،اور تقریباً دو سال مفتی صاحب کی رفاقت رہی ،پھر میں اپنے گھر سے قریب مدرسہ فیض العلوم محمد آباد گوہنہ آیا اور مفتی صاحب اُ سی سال یا کچھ بعد میں شمس العلوم گھوسی تشریف لائے۔محمد آباد سے گھوسی میری آمد و رفت ہوتی رہتی تھی،اس لیے ملاقات اور گفت و شنید کاسلسلہ جاری رہا،پھر میں محمد آباد سے جامعہ اشرفیہ مبارک پور آیا اور مفتی صاحب غالباًچمنی بازارپورنیہ پہنچے۔روابط برابر جاری رہے۔جب وہ ۶؍ صفر المظفر ۱۴۰۷ھ/ ۱۱؍ اکتوبر ۱۹۸۶ء کو خانقاہ رشیدیہ جون پور کے باضابطہ سجادہ نشیں ہوئے تو بھی جامعہ اشرفیہ مبارک پور ان کی آمد ہوتی رہتی ۔
سجادہ نشیں ہونے کے بعد انھوں نے خانقاہ رشیدیہ کی تمام شاخوں کی طرف توجہ دی ۔ سکندر پور بلیا،نور الدین پورہ غازی پور،بہمن برہ شریف سیوان،چمنی بازار شریف پورنیہ ہر جگہ آنا جانا،وہاں کے حالات دیکھنا،جائدادوں اورانتظامات کا جائزہ لینا،مقررہ اوقات پر اَعراس منعقد کرنایہ سب معمول میں داخل ہوگیا۔
چوں کہ صاحب علم اور علم دوست تھے اس لیے انھوں نے خانقاہ رشیدیہ کے کتب خانے پر بھی توجہ دی،اور اشاعت کے لیے’’ شاہ عبد العلیم آسی فاؤنڈیشن ‘‘کے نام سے دہلی میں ایک ادارہ بھی قائم کیا جس سے کئی کتابیں عمدہ انداز میں شائع ہوئیں ۔کئی مدرسے بھی قائم کیے۔سب کی تفصیل کسی دوسرے مضمون میں ملاحظہ کریں ۔
جامعہ اشرفیہ مبارک پور میں جب درسی کتابوں کی اشاعت کے لیے مجلس برکات کا قیام عمل میں آیا اور اس کی ذمہ داری میرے سر آئی تو دیکھا گیا کہ بہت سی کتابوں کے حواشی بڑی آب و تاب سے شائع ہورہے ہیں اور محشی حضرات کے نام غائب کر دیے گئے ہیں ،اس لیے جستجو ہوئی کہ ان کتابوں کے قدیم نسخے دریافت کیے جائیں،جن پر محشی حضرات کے نام درج ہوں ۔اس سلسلے میں بڑی کامیابی ملی۔ہدایۃالنحو کا ایک نسخہ مطبع نظامی کان پور کا ۱۲۷۶ھ کا شائع شدہ ملا جس سے معلوم ہوا کہ اس کا حاشیہ مولانا الٰہی بخش فیض آبادی (متوفی ۱۳۰۶ھ) کا ہے جو اَب نام غائب کرکے شائع ہورہا ہے ۔یہ نسخہ خود جامعہ اشرفیہ کی لائبریری میں دست یاب ہوا ۔ مجلس برکات کی اشاعت میں حضرت محشی کا نام مع تعارف درج ہے ۔
مدرسہ چشمہ ٔرحمت غازی پور میں میر قطبی کا ایک نسخہ ملا جس پر مولانا رونق علی رُدولوی کا نام بحیثیت محشی درج تھا۔یہ نسخہ مطبع یوسفی لکھنؤ سے سنہ۱۳۱۳ھ میں شائع ہوا۔خاتمۃ الطبع خود مولانا رونق علی رُدولوی نے لکھا ہے ۔اسی کا عکس مجلس برکات سے شائع کیا گیا۔
ایک بار میں نے عزیز گرامی مفتی آل مصطفیٰ مصباحی(مرحوم) سے کہا کہ جب مفتی عبید الرحمٰن رشیدی صاحب جون پور آئیں اور دو تین دن قیام کا ارادہ ہو تو تاریخ معلوم کرکے رکھیں ۔ اس موقع سے وہاں حاضری دی جائے اور خانقاہ رشیدیہ کے کتب خانے کا بھی جائزہ لیا جائے ، ممکن ہے اپنے مطلب کی کوئی کتاب وہاں دست یاب ہو۔
پروگرام کے مطابق ایک تاریخ کو ہم لوگ جون پور حاضر ہوئے۔مفتی صاحب موجود تھے ۔خانقاہ رشیدیہ کے کتب خانے میں علامہ ابن حاجب جمال الدین عثمان بن عمر رحمہ اللہ(۵۷۰ھ-۶۴۶ھ) کی کافیہ کاایک نسخہ تھاجو پہلے حضرت مولانا غلام معین الدین رشیدی (وصال ذی الحجہ ۱۳۰۷ھ) کی ملک میں تھا۔اس پرحاشیہ مولانا محمد معشوق علی جون پوری کا تھا جو مطبع علویہ علی بخش خانی سے ذی الحجہ ۱۲۶۷ھ میں شائع ہوا۔خاتمۃ الطبع خود مولانا معشوق علی جون پوری علیہ الرحمہ نے لکھا ہے ۔ان کا وصال ۶؍ رمضان ۱۲۶۸ھ میں ہوا اور جون پور ہی میں مدفون ہوئے ۔خانقاہ رشیدیہ کے چھٹے سجادہ نشیں مولانا غلام معین الدین رشیدی علیہ الرحمہ کو ان سے تلمذ بھی حاصل ہے ۔یہ نسخہ ملنے کے بعد میں نے مدرسہ حنفیہ محلہ میر مست جون پور سے شمس العلما قاضی شمس الدین احمد جعفری علیہ الرحمہ کے فرزند مولانا ہشام احمد صاحب کے پاس سے کافیہ کا نیا نسخہ منگاکر ۱۲۶۷ھ کے نسخے سے مقابلہ کیا تو معلو م ہوا کہ وہی نسخہ نئی کتابت وطباعت کے ساتھ حضرت محشی کا نام غائب کرکے شائع ہورہا ہے۔مجلس برکات کی اشاعت میں ۱۲۶۷ھ کے خاتمۃ الطبع کا عکس اور حضرت محشی کا نام مع تعارف دے دیا گیا ہے تاکہ تقریباً ڈیڑھ سو سال سے جو ظلم جاری تھا،اس کا پردہ چاک ہو۔
مفتی صاحب کے توسط سے مختصر المعانی کا بھی ایک نسخہ حاصل ہوا جس کا عکس مجلس برکات سے شائع کیا گیا۔اصل نسخہ مطبع مصطفائی لکھنؤ سے۱۳۱۲ھ میں شائع ہوا ۔حاشیے کا نام تجرید ہے جو شیخ مصطفیٰ بنانی مصری کا ہے ۔ان کی وفات تقریباً ۱۲۳۸ھ میں ہوئی ۔
حضرت مفتی صاحب علمی ذوق رکھتے تھے اس لیے خانقاہ کی قلمی کتابوں کا مطالعہ بھی کرتے تھے۔ایک مرتبہ انھوں نے گنج ارشدی کے حوالے سے ایک واقعہ بیان کیا کہ:
ایک بزرگ اپنے پیر ومرشد سے تصوف اور سلوک کی تعلیم حاصل کرتے تھے۔ایک عرصے کے بعد ان کی تعلیم مکمل ہوئی تو انھوں نے اپنے مرشد سے وعظ کہنے کی اجازت طلب کی۔ انھوں نے فرمایا کہ وعظ کہنے کے لیے جو شرطیں ہیں وہ سب تم میں پائی جاتی ہیں،صرف ایک شرط کے بارے میں شک ہے کہ وہ تم میں ہے یا نہیں ؟ وہ شرط یہ ہے کہ واعظ دوسروں کے فائدے کو اپنے فائدے پر ترجیح دے۔مرید نے عرض کی:حضور !آپ کی تعلیم و تربیت کے طفیل میر ی تو عادت ہے کہ دوسروں کے فائدے کو اپنے فائدے پر ترجیح دیتا ہوں ۔مرشد نے فرمایا: اگر ایسا ہے تو شاید تم وعظ کہہ سکتے ہو،لیکن وعظ کہنا ہو تو ہمیں بھی اطلاع دیناتاکہ تمھارے حقائق و معارف سے ہم بھی مستفید ہوں ۔
حسب ارادہ انھوں نے ایک دن مسجد میں اپنا وعظ رکھا۔لوگوں میں اس کا اعلان کیا اور مرشد گرامی کو بھی اطلاع دی ۔وقت پر سب لوگ جمع ہوگئے تو ان کا وعظ شروع ہوا۔بڑے حقائق و معارف کا بیان ہورہا تھا۔اسی اثنا میں ایک سائل بالکل برہنہ مسجد کے صحن میں آگیا اور صدالگائی:’’ ننگے کو کپڑا پہناؤ‘‘۔واعظ صاحب فوراً منبر سے اترے اور صحن میں جاکر سائل کو اپنا جبہ پہنادیا۔وہاں سے واپس ہوکر پھر منبر کی جانب وعظ کے لیے بڑھے تو مرشد گرامی نے روک دیا ۔فرمایا: مجھے اسی کا شک تھا۔تم نے اپنے فائدے کو دوسروں کے فائدے پر ترجیح دی ۔ جب سائل نے صدالگائی تو تمھیں توقف کرنا تھا کہ کوئی اور سبقت کرے۔جب کوئی سبقت نہ کرتا تو تم آگے بڑھتے اور اپنا عمامہ دیتے وقت کہتے کہ یہ ہم حاضرین کی طرف سے پیش ہے۔تم نے تو کسی کو اس کارِ خیر کا موقع ہی نہ دیا،خود فوراً جاکر سارا ثواب اور فائدہ اپنے لیے خاص کر لیا ۔ اب معلوم ہوگیا کہ تم وعظ کے اہل نہیں ہو۔
حضرت مفتی صاحب سے ملاقاتیں اور باتیں تو بہت رہیں مگر سب یاد نہ رہیں،اس لیے زیادہ تحریر کرنا مشکل ہے ۔
مجلس شرعی جامعہ اشرفیہ مبارک پور کے کئی سیمیناروں میں بھی انھوں نے شرکت کی اور بحثوں میں حصہ لیا۔جب وہ گھوسی میں پڑھارہے تھے اس وقت شرعی بورڈ کی کئی نشستیں جامعہ اشرفیہ میں منعقد ہوئی تھیں اور علامہ ارشد القادری کے دائر کردہ سوالات پر بحثیں ہوئی تھیں،ان دنوں بھی مفتی صاحب مبارک پور آئے اور تمام نشستوں میں سرگرم حصہ لیا۔
اس میں شک نہیں کہ وہ ایک بلند پایہ محقق،عمدہ فقیہ،زبردست پیر ،اچھے منتظم اور سلسلۂ رشیدیہ کے فروغ میں اہم کردار کے حامل تھے۔مولا تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔آمین یارب العلمین وصلی اللہ تعالٰی علی سید المرسلین وعلیہم و علی آلہ وصحبہ اجمعین.