شناخت

مجمع البحرین :جامع شریعت  وطریقت

مولانا محمد عبد المبین نعمانی قادری

دار العلوم قادریہ ،چریا کوٹ ،مئو(یوپی)

ایسے عالم بہت کم ملتے ہیں جو بہ یک وقت شریعت و طریقت دونوں کے جامع ہوں ۔ عالم ربانی، جامع معقول ومنقول ،حاوی فروع و اصول حضرت علامہ مفتی عبید الرحمٰن رشیدی مصباحی پورنوی علیہ الرحمۃ و الرضوان واقعی عالم شریعت بھی تھے اور مرشد طریقت بھی۔

 شروع میں ان کو منطق و فلسفہ میں ماہر مانا جاتا تھا لیکن جب درس گاہی دنیا میں آئے تو آپ ہر فن مولیٰ کی حیثیت سے ماہر علوم وفنون ثابت ہوئے۔علم معقول ہو یا منقول ہرایک میں آپ ایک ممتاز مقام کے حامل تھے ۔درس و تدریس کا کچھ عرصہ گزراتو آپ کو مفتی کی حیثیت سے بھی لوگ جاننے لگے۔فقہ و فتویٰ سے بھی آپ کو گہرا لگاؤ تھا اسی لیے جہاں بھی رہے دار الافتا کی ذمے داریاں بھی سنبھالنے لگے ۔

میں جب  دارالعلوم اشرفیہ مبارک پور تعلیم حاصل کرنے گیا تو آپ اس سے ایک سال قبل ہی فراغت پاکر جا چکے تھے لیکن ان کا چرچا اور ان کا علمی شہرہ طلبہ کی زبانوں پر جاری تھا جس سے مجھےآپ کی قابلیت کا علم ہوا اورمیں مشتاقِ زیارت ہوگیا،پھرجب حضرت مفتی صاحب جامعہ حمیدیہ رضویہ مدن پورہ بنارس میں بحیثیت مدرس تشریف لے گئے تو میں بنارس قیام کے دوران آپ سے ملنے جانے لگا۔میں علم دوست اور علما پسند توتھا ہی اس لیے حضرت مفتی صاحب علیہ الرحمہ سے علمی استفادہ بھی کرتا۔وہ اچھے بڑے عالم تھے۔عمر میں بھی مجھ سے زیادہ  تھے،اس لیے ان سے استفادہ کرنے میں مجھے کبھی تکلف نہ ہوا۔ اسی دور میں شمس العلما قاضی شمس الدین احمد رضوی جعفری جون پوری(مصنف قانون شریعت )صدر المدرسین جامعہ حمیدیہ رضویہ اور شیخ المعقولات حضرت علامہ محمد سلیمان اشرفی بھاگل پوری علیہما الرحمۃ و الرضوان کے درس کا بھی بڑا غلغلہ تھا ۔ان بزرگوں سے بھی اکتسابِ فیض کرتا اور عالم ربانی حضرت مولانا خادم رسول گیاوی علیہ الرحمہ سے بھی ملاقات ہوتی تھی۔

حضرت مفتی صاحب علیہ الرحمہ بڑے بھرے پُرے عالم تھے۔کوئی بات پورے اعتماد سے بولتے  اور دلائل سے مبرہن کرتے۔انھیں دیکھ کر ہر آنے والا متاثر ہوتا،اور ان کا عالمانہ جاہ وجلال اس پر طاری ہوجاتا۔ حضرت مفتی صاحب ہمیشہ سادگی کا پُتلا بنے رہے۔ ظاہری طمطراق ،تڑک بھڑک اور لاولشکر سے پرہیز کرتے۔ہر ایک سے حسن اخلاق کا مظاہرہ کرتے ،علما کی قدر کرتے،چھوٹوں پر شفقت کرتے۔

میرے ہم درس ہیں مولانا سلیم اخترمصباحی جو ممبئی میں رہتے ہیں ۔ان سے سن کر ایک صاحب نے بتایا کہ ہم لوگ دورانِ تعلیم جب جس کتاب کی تکرار چاہتے،حضرت مفتی صاحب بلاتکلف تکرار فرمادیتے -یا جب کبھی کسی سبق کو سمجھنا چاہتے فوراً سمجھا دیتے،گویا وہ علم کے سمندر تھے ۔یہ ساری باتیں تو سجادہ نشین ہونے سے پہلے کی ہیں ۔

جب آپ سجادہ نشیں ہوگئے اور آپ کا مرتبہ ایک بڑے پیر کا بھی ہوگیا تو یہ سارے اخلاقِ جمیلہ باقی ہی نہیں رہے، ان میں اضافہ بھی ہوگیا۔ایک سچے اچھے پیر کا پیکر اگر کوئی دیکھناچاہتاتوآپ کو دیکھ لیتا،باجودے کہ خانقاہ رشیدیہ جون پور کے ساتھ کئی اور رشیدی خانقاہوں کے آپ سجادہ نشیں تھے لیکن آپ نے پیشہ ورانہ پیری مریدی کبھی نہیں کی۔دنیاداری سے آپ ہمیشہ دور رہے ۔حبِ مال، حب ِ جاہ سے کنارہ کش رہے۔آپ کے قول و فعل سے حرص اور لالچ کا کہیں پتا نہیں چلتا تھا،پیری مریدی کو دنیا کمانے کا ذریعہ نہیں بنایا۔قناعت آپ کا شیوہ تھا۔ زہد آپ کا اوڑھنا بچھونا اور عبادت و تقویٰ آپ کی خو تھی ۔

سیٹھوں اور مال داروں کی خوشامد کبھی نہیں کی ۔ایک صاحب جو مفتی صاحب کے حاضر باش تھے،انھوں نے بتایا کہ اگر علما سے گفتگو کےدرمیان کوئی بڑا سے بڑا سیٹھ آجاتا تو  بات کاٹ کر اس کی طرف متوجہ نہ ہوتے جب فرصت ملتی تب ہی اس سے مخاطب ہوتے۔یہ بہت بڑی بات ہے جو حضرت مفتی صاحب علیہ الرحمہ کی فقیرانہ اور زاہدانہ شان کو اجاگر کرتی ہے۔اسی شانِ فقر کا مظاہرہ اس وقت ہوا جب منڈواڈیہ مدرسے کی تعمیر ہورہی تھی۔کچھ لوگ ایک ایک کمرہ بنواناچاہتے تھے لیکن ان کی فرمائش تھی کہ کمروں پر ان کے آبا و اجداد کا نام بھی تختی پر لکھوایا جائے۔حضرت مفتی صاحب کو معلوم ہوا تو فرمایا کہ کسی کا نام کمروں پر نہیں لکھا جائے گا۔اس کے بغیر جو مدد کرنا چاہے کرے-تو ان لوگوں نے شاید ناراضگی کا اظہار کیا-پھر کچھ دنوں کے  بعد ایک اللہ والے سیٹھ صاحب آئے اور انھوں نے تمام کمروں کی تعمیر کا  خودذمہ لے لیا اور یہ بھی منظور کرلیا کہ ہم کسی کا نام ان کمروں پر نہیں لکھوائیں گے۔یہ حضرت مفتی صاحب کی وہ شان ہے کہ اس کی نظیر ملنی مشکل ہے۔فقر اس کو کہتے ہیں ،درویشی اس کا نام ہے  ،بلکہ اس کو کرامت بھی کہاجاسکتا ہے اور روحانی تصرف بھی۔

 گھر پر نشست گاہ بھی معمولی تھی۔کبھی باہر چارپائی بچھاکر اسی پر بیٹھ جاتے اور لوگوں سے ملاقات کرتے۔لباس بھی بہت سادہ ہوتا ۔ٹوپی بھی عام لوگوں جیسی ہوتی ۔

آپ کے اندر علمی جاہ وجلال تو تھا ہی لیکن ذاتی طور سے کبھی تکبرانہ لب ولہجہ استعمال نہیں کرتے۔وقار و سکینت جو ایک عالم کی شان ہے ،وہ آپ کے اندر بھر پور پائی جاتی تھی۔

ایک مرتبہ منڈواڈیہ بنارس خانقاہ میں ملنے گیا تو بہت معمولی انداز سے بیٹھے تھے ۔آنے والے آتے اور مل کر چلے جاتے۔نہ دروازہ بند تھا نہ ہٹو بچو کی کوئی بات تھی۔غرض حضرت مفتی صاحب کی ذات اسلاف ِ کرام اور بزرگانِ دین کا سچا نمونہ تھی ۔لوگ صوفی بنتے ہیں مگر آپ واقعی صوفی تھے ۔اندر باہر سب یکساں تھا۔منافقت اور ریا کاری کی آپ کے یہاں کچھ بھی گنجائش نہ تھی۔ سب کام اخلاص و حسن نیت پر مبنی تھا۔

جب حضرت مفتی عبید الرحمٰن صاحب علیہ الرحمہ جامعہ حمیدیہ رضویہ بنارس میں مدرس تھے۔ اس وقت شمالی بنارس (علوی پورہ) سے مولوی عبد القدوس قاسمی بن مفتی ابراہیم بنارسی نے ایک اشتہار نکالا جس کا عنوان تھا-اجمیر اور بہرائچ کا سفر قتل و زنا سے بدتر ہے- اس کے جواب میں بہت جلسے ہوئے اور رد میں اشتہارات بھی شائع ہوئے۔اسی دوران یہ بحث بھی آئی کہ آج لوگ بزرگوں کے آستانوں سے تبرک کا برتاؤکرتے ہیں، انھیں چومتے اور ادب بجالاتے ہیں۔ یہ شرک ہے  اور حوالے میں یہ بات کہی گئی کہ امیر المومنین حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شجر بیعت رضوان کو اسی لیے کٹوادیا تھا کہ لوگ اس کی تعظیم نہ کریں اور شرک میں مبتلا نہ ہوں -تو اس کے جواب میں حضرت مفتی صاحب علیہ الرحمہ نے قلم اٹھایا۔ایک مختصر مگر محققانہ کتاب لکھ ڈالی جس کا نام ہے ’’ بیانِ حقیقت‘‘۔یہ کتاب اسی وقت شائع ہوئی تھی۔ شاید دوبارہ اشاعت کی نوبت نہیں آئی ۔

یوں ہی جب بجرڈیہہ بنارس میں غیر مقلدوں سے مناظرہ ہوا۔اہل سنت کی طرف سے محدث کبیر حضرت علامہ ضیاء المصطفیٰ قادری امجدی مناظر تھے۔اس مناظرے کی روداد محقق اہل سنت حضرت علامہ عاشق الرحمٰن حبیبی  علیہ الرحمہ نے مرتب کی جو اسی وقت شائع ہوگئی تھی لیکن غیر مقلدوں نے جو روداد شائع کی  اور مضامین کو توڑ مروڑ کر پیش کیا اور ہم سنیوں کو مشرک ثابت کرنے کی جھوٹی کوشش کی تو حضرت مفتی صاحب علیہ الرحمہ نے شرک اور توحید کے موضوع پر ایک محققانہ کتاب لکھی اور اس کا نام’’اختیارِ نبوت‘‘ رکھا ،جس کا پہلا ایڈیشن مدرسہ شمس العلوم گھوسی سے شائع ہوا ،پھر اس کا دوسرا ایڈیشن ناچیز راقم الحروف(نعمانی) کے اہتمام سے رضا اسلامک مشن مدن پورہ بنارس سے شائع ہوا ۔اس کے بعد اس کا تیسرا ایڈیشن بھی ناچیز ہی کی تجویز سے طلبۂ مدرسہ ضیاء العلوم ادری (مئو)نے شائع کیا۔ہر ایک ایڈیشن میں میرا لکھا ہوا مختصر پیش لفظ بھی ہے جس کا چوتھا ایڈیشن شاہ عبد العلیم آسی فاؤنڈیشن دہلی سے نہایت آب و تاب اور شان دار انداز سے شائع ہوا جسے دیکھ کر میری طبیعت باغ باغ ہوگئی۔عزیزی مولانا ابراررضا مصباحی  نے اس کو جاندار شاندار بنانے میں بڑی کوشش کی ہے ،بلکہ آسی فاؤنڈیشن کی تما م ہی کتابوں کی اشاعت آپ کی مرہون منت ہے ۔

حضرت مفتی عبید الرحمٰن رشیدی علیہ الرحمہ مدرس بھی تھے،ساتھ ہی آپ بے نظیر واعظ اور مقرر بھی تھے۔آپ کی تقریر عالمانہ ہوتی اور از دل خیزد بر دل ریزد کا مصداق بھی- ایک بار میں نے چریا کوٹ میں بھی آپ کو  دعوت دی تھی ،آپ تشریف لائے اور بہترین واعظانہ خطاب فرمایا۔اس وقت حضرت جامعہ شمس العلوم گھوسی میں شیخ الحدیث کے عہدے پر فائز تھے ۔

بنارس سے جب حضرت مفتی صاحب دار العلوم محمدیہ ممبئی تشریف لے گئے تو میں اس وقت بھی رابطے میں رہا اور خط و کتابت کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔میں اس وقت عمر کے ابتدائی دور میں تھا۔خطوط کی آج جتنی اہمیت ہے ،اس وقت محسوس نہیں ہوئی ورنہ آج وہ خطوط برکت کی حیثیت رکھتے۔حضرت مفتی صاحب کے خطوط مریدین و تلامذہ میں جن کے پاس بھی ہو ں،ان کو جمع کرنے کی ضرورت ہے ۔یوں ہی حضرت کے فتاویٰ بھی جمع کیے جائیں۔یہ کام خاصا مشکل ہے کیوں کہ مفتی صاحب علیہ الرحمہ نے مختلف اور متعدد مدارس میں درس دیا اور ہر جگہ فتوے کا بھی کچھ نہ کچھ کام ضرور کیا ہوگا۔

ادارہ شرعیہ بہار(پٹنہ) کا جب قیام عمل میں آیا تو اس وقت حضرت مفتی صاحب علیہ الرحمہ مدرسہ فیض العلوم جمشید پور میں تھے۔حضرت رئیس القلم علامہ ارشد القادری (علیہ الرحمہ) کی فرمائش پر مفتی صاحب نے نظام قضا سے متعلق دستور بھی مرتب فرمایا تھا۔غالباً آج تک حضرت کے مرتب کردہ نظام قضا پر ہی عمل ہورہا ہے۔یہ بھی حضرت مفتی صاحب علیہ الرحمہ کی ایک بڑی دینی خدمت ہےجس سے کم ہی لوگ واقف ہیں۔

حضرت مفتی عبید الرحمٰن رشیدی علیہ الرحمہ کے اٹھ جانے سے درس گاہیں بھی اداس ہیں اور خانقاہیں بھی سونی پڑی ہیں اور رشد وہدایت کا جو بھی کام سر انجام پارہا تھا،وہ سب کا سب دھرا ہی رہ گیا ہے۔مولاے قدیر آپ کے روحانی فرزندوں کو ان کے فیوض و برکات عام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔آپ کی درس گاہ سے تربیت پانے والے تو حضرت کے درسی فیوض کو بانٹ ہی رہے ہیں ۔خداے تعالیٰ اسے دراز فرمائے اور تلامذہ کو اسے جاری رکھنے کی توفیق دے ۔آمین۔

admin@alnoortimes.in

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

شناخت

مبلغ اسلام حضرت علامہ محمد عبد المبین نعمانی مصباحی— حیات وخدمات

از:محمد ضیاء نعمانی مصباحی متعلم: جامعہ اشرفیہ مبارک پور یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ معاشرے کی کامیابی اور قوم
شناخت

فضا ابن فیضی شخصیت اور شاعری

17 جنوری آج مشہور معروف شاعر فضا ابن فیضی کا یوم وفات ہے فیض الحسن فضا ابن فیضی یکم جولائی