آفتاب رشیدیہ حضرت شیخ محمد رشید عثمانی جون پوری

محمد رہبر رشیدی شرف جامعی
شمالی ہند کا شہر جونپور تاریخی حیثیت رکھتا ہے ۔ فیروز شاہ تغلق نے اس دبستان علم و فن کی تعمیر و ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا ہے ۔ جب جونا خان سریر سلطنت پر فائز ہوا تو اس نے اس شہر کا نام اپنے نام پر جونپور رکھا ۔ وقت کے ولی کامل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر علیہ الرحمہ نے اس شہر کو شیرازۂ ہند کہا ہے۔ یہ شہر علم و فن کا مرکز رہا ہے ۔یہاں کی مردم خیز مٹی سے بےشمار اساطین علم و فضل جنم لیے ہیں۔ جنہوں نے ہزاروں جمودات کو تراش خراش کر انسان بنایا ہے۔ اس علمی شہر میں بہترے بزرگوں کے آثارِ قدیمہ بھی موجود ہیں جو زیارت گاہ خاص و عام کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ اللہ جل مجدہ الکریم نے یہاں کی خاک سے دین متین کی خدمت کے لیے جن پاکباز ہستیوں کا انتخاب فرمایا ہے۔ دسویں صدی ہجری کے عظیم صاحب علم و دانش ، تصوف و روحانیت کے حامل اور صحرائے سلوک و معرفت سبک گام مسافر حضرت شیخ محمد رشید عثمانی قدس سرہ العزیز (صاحب مناظرہ رشیدیہ) کا نام بھی انہیں میں سے ایک ہے۔
دسویں صدی ہجری کی دسویں تاریخ 19, اگست 1592ء میں علم و ولایت اور تصوف و طریقت کا یہ ضو فشاں آفتاب طلوع ہوا اور 9, رمضان المبارک 1000ھ بروز جمعہ یہ آفتاب عالم تاب ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا۔
یوں تو آپ کا اسم گرامی محمد رشید ہے اور بعض نسخوں میں عبد الرشید بھی ملتا ہے۔ تاہم محمد رشید ہی راجح اور مشہو و معروف ہے۔ کنیت ابو البرکات ہے۔ لقب شمس الحق ہے۔ لوگ قطب الاقطاب اور دیوان جی کہا کرتے تھے۔ آپ مذہباً حنفی ، مشرباً چشتی اور نسباً عثمانی تھے۔ آپ کے والد بزرگوار حضرت شیخ مصطفیٰ جمال الحق بندگی عثمانی قدس سرہ العزیز قطب وقت اور عظیم روحانی شخصیت تھے جو بائسی سے تقریباً 35 کیلو میٹر کی مسافت پر قصبہ چمنی بازار شریف میں آسودہ خاک ہیں ۔
علما آپ کی پیشانی پر درخشندہ ستارہ کو دیکھ فرماتے کہ یہ بچہ بہت آگے تک جائے گا۔ چنانچہ کتابوں میں آتا ہے کہ ایک جلیل القدر عالم دین حضرت مولانا عبد الجلیل لکھنوی علیہ الرحمہ نے آپ کو دیکھ کر یوں فرمایا ”یہ لڑکا عالم عامل اور عارف کامل ہوگا اور گنا بہت کھائے گا“
اسی طرح سے حضرت علامہ شاہ عبد العزیز محدث جونپوری ثم الدہلوی قدس سرہ العزیز نے آپ کی بابت یوں فرمایا تھا : میرے بعد ایک فقیر پیدا ہوگا جس کا نام محمد رشید ہوگا۔
آپ نے ابتدائی تعلیم مختلف ماہرین علوم و فنون اساتذہ کرام سے حاصل کی ۔ اور دیگر ساری کتابیں جن اساتذہ سے پڑھیں ان میں آپ کے ماموں جوہر شناس حضرت مولانا شمس الدین اور استاد العلما مولانا افضل علیہما الرحمہ کے اسما قابل ذکر ہیں ۔ بایں ہمہ جب علم حدیث کی تشنگی ختم نہ ہوئی تو محقق علی الاطلاق حضرت علامہ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ کی بارگاہ ناز میں زانوئے تلمذ تہہ کرنے کے لیے تشریف لے گئے ۔ تاہم انہوں اپنی پیرانہ سالی اور ضعف و نقاہت کا عذر پیش فرمایا اور کہا کہ میری موجودگی میرے فرزند ارجمند نور الحق سے درس لو ۔ چنانچہ آپ نے وہاں سے وافر مقدار میں علم حدیث حاصل کیا۔
اساتذہ کی تعظیم و تکریم شاگرد کی پڑھائی میں رفعت وبلندی رنگ لاتی ہے۔ آپ جب استاد العلما مولانا افضل رحمہ اللہ کی خدمت میں درس لینے کے لیے حاضر ہوتے تو پہلے قدم بوسی فرماتے پھر چوکھٹ چوم کر مکمل یکجہتی و تندہی کے ساتھ پڑھنے کے لیے بیٹھ جاتے ۔ مجھے لگتا ہے یہ تعظیم دنیا ہی میں بڑی نتیجہ خیز ثابت ہوئی کہ جب ایک بار حسب معمول استاد العلما کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھا کہ فن مناظرہ کا مہتم بالشان رسالہ ”شریفیہ“ مطالعہ فرما رہے ہیں ۔ یکایک حضرت نے فرمایا کہ متن تو خوب ہے کوئی اس کی شرح لکھ دیتا تو کیا ہی اچھا کام ہوتا ۔ اللہ اللہ قربان جائیے ایسے ذہین و فطین اور ذی شعور شاگرد پر کہ ایک ہفتہ میں اس کی شرح ”رشیدیہ“نام سے لکھ کر استاد العلما کی خدمت میں پیش کر دیا ۔ استاد گرامی نے اس دلپذیر کاوش کو دیکھ کر انتہائی مسرت اور خوشی اظہار فرمایا ۔ ممدوح کی یہ خوشنما تصنیف درسگاہوں میں اتنی مقبول ہوئی کہ اب مناظرہ فہمی کے لیے دوسری کتابوں کی حاجت نہیں ۔
بعد فراغت ہمیشہ درس و تدریس ہی سے جڑے رہے ۔ اورایسا کیوں نہ ہو کہ مرشد بر حق حضرت مخدوم شاہ طیب بنارسی قدس سرہ العزیز کی تاکید بھی تھی ۔ طلبہ سے اس قدر محبت فرماتے تھے کہ آپ نے یہ وصیت فرمائی کہ جس پتھر پر ہمارے طلبہ جوتیاں رکھتے ہیں اسی کا میری قبر پر تختہ دیا جائے ۔ آج ایسے لوگ تو خال خال ہی نظر آتے ہیں جو طلبہ سے اس قدر محبت کرتے ہوں ۔ ایسے لوگ جو طلبہ کو نظر حقارت سے دیکھتے ہیں ان سے پر زور گزارش ہے کہ وہ بزرگوں کے نشان قدم پر چلیں!
نو برس کی عمر آپ نے اپنے پدر بزرگوار حضرت شیخ مصطفیٰ جمال الحق قدس سرہ العزیز کے دست حق پرست پر سلسلہ چشتیہ میں بیعت کی اور خرقہ ارادت و خلافت سے بہرور ہوئے۔ آپ کو کئی سلاسل حقہ کی خلافت و اجازت حاصل تھیں ۔ آپ کے تلامذہ کثیر تعداد میں تھے جن میں بیشتر مریدین و خلفا ہوئے ۔ آپ کے نامور خلفا میں میر سید قیام الدین گورکھپوری ، میر سید جعفر پٹنوی اور شیخ یٰسین جھونسوی علیھم الرحمہ کے اسما سر فہرست ہیں ۔
آپ کی تصنیفات میں مناظرہ رشیدیہ ، تذکرۃ النحو ، زاد السالکین ، مقصود الطالبین ،ترجمہ معینیہ، بدایۃ النحو، مکتوبات ، دیوان شمسی اور دیوان آسی ہیں ۔ علاوہ ازیں کچھ کتابیں غیر مطبوعہ ہیں۔ واضح رہے شعر و سخن سے غایت درجہ دلچسپی رکھتے تھے۔ دیگر فنون کی طرح اس فن میں بھی کامل عبور حاصل تھا۔ جس کی ایک جھلک سے آنکھیں روشن کرنے کے لیے دیوان آسی کے چند اشعار ہی کافی ہیں ۔
آپ کے اوصاف و معمولات اور فضائل و کمالات کے حوالے سے بہت ساری باتیں ہیں تاہم مضمون کی طوالت سے بچتے ہوئے ”سمات الاخیار“ کا صرف ایک اقتباس حاضر خدمت ہے ۔
سمات الاخیار میں ہے کہ آپ کسی کی غیبت نہیں سنتے تھے۔ اگر کوئی ناواقف غیبت کر بیٹھتا تو آپ بیزار ہوتے اور اس کی کسی اچھی بات سے تاویل فرماتے۔ مثلاً ایک مرتبہ حاجی جلال نے سادات خاں (حاکم شہر) کی شکایت کی آپ نے فرمایا:
”میرے سامنے کوئی کسی کی بدی ظاہر کرتا ہے تو مجھے اس کے جواب میں مشکل پڑ جاتی ہے ۔ کیونکہ خدا نے گمان بد سے منع فرمایا ہے۔ اور اس کے رسول نے حسن ظن کا حکم دیا ہے ۔ لامحالہ مجھے توجیہ کرنے کی ضرورت پڑتی ہے ۔ مثلاً اگر کسی کو رمضان میں سر بازار کھانا کھاتے ہوئے دیکھوں تو گمان کروں گا کہ مسافر یا بیمار ہے کہ بھوک کے غلبے سے الگ لے جا کر کھانا کھانے کی طاقت نہیں رکھتا ہے۔ اگر کسی کو عورت غلیظہ کے علاوہ ننگے بدن نماز پڑھتا ہوا دیکھوں تو سمجھوں گا کہ مالکی المذہب ہے۔ اگر کسی کو دیکھوں کہ فصد کے بعد بلا تجدید وضو نماز پڑھ رہا ہے خیال کروں گا کہ شافعی المذہب ہے ۔ اگر کسی کو جانوں کہ اس نے شراب پی ہے کہوں گا کہ توبہ کر لی ہوگی۔“
یہ بھی واضح کردوں کہ سلسلہ رشیدیہ کے بانی آپ ہی ہیں ۔ آپ نے اس سلسلہ کی بنا شریعت کے اصولوں پر رکھی۔ اس خانقاہ و تربیت گاہ سے ایسے افراد تیار کئے کہ جنہوں نے خلافت و اجازت کو بطور وراثت نہیں بلکہ بطور امانت استعمال کیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس دور انحطاط علمی و روحانی میں بھی خانقاہ رشیدیہ کا معیار بلند و بالا ہے ۔
اللہ جل مجدہ الکریم فیضان مشائخین خانقاہ عالیہ رشیدیہ سے مالا مال فرمائے!