قلیل المدتی سردی کی لہر: ماحولیاتی نظام کے لیے ایک تشویشناک صورتحال

منصور الحق” سعدی” علیگڑھ
زمین کا ماحولیاتی نظام ایک نازک توازن پر قائم ہے، جو جانداروں اور غیر جاندار عناصر کے درمیان ہم آہنگی کو برقرار رکھتا ہے۔ یہ نظام زمین پر زندگی کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے، کیونکہ یہی توازن ہوا، پانی، زمین اور جانداروں کے درمیان قدرتی نظم و ضبط کو قائم رکھتا ہے۔ ایک متوازن ماحولیاتی نظام پودوں، جانداروں اور نامیاتی اجسام کو ان کے قدرتی ماحول میں بقا اور ترقی کے مواقع فراہم کرتا ہے، جبکہ قدرتی وسائل جیسے کہ پانی، معدنیات اور توانائی کو مستحکم رکھتا ہے۔
شمالی ہندوستان کے میدانی علاقوںمیں سردیوں کے دوران شدید ٹھنڈ ایک معمول کی بات سمجھی جاتی ہے۔ لیکن امسال فروری کے آغاز سے معمول سے کم سردی کی موجودگی ایک غیر متوقع موسمی رجحان ہے، جو نہ صرف ماحولیاتی نظام کو متاثر کر سکتا ہے بلکہ صحت، زراعت اور معیشت پر بھی گہرے اثرات مرتب کر سکتا ہے۔ جغرافیائی اصطلاحات کی روشنی میں، موسمیاتی تبدیلیاں عالمی حدت (Global Warming) اور مقامی عوامل کے تحت وقوع پذیر ہوتی ہیں، جو موجودہ صورتحال کے بنیادی اسباب میں شامل ہو سکتے ہیں۔
شمالی ہندوستان کے میدانی علاقوں میں سردیوں کی شدت ہمالیائی سلسلے کی برف باری اور قطبی ہوائیں (Polar Winds): مغربی موسمی خلل (Western Disturbances) جب شدت اختیار کرتے ہیں تو یہ قطب شمالی سے ٹھنڈی ہوائیں لے کر آتی ہیں، جس کے نتیجے میں درجہ حرارت دن بدن تیزی سے گرنے لگتا ہے ۔
اس برس مشاہدہ کیا جا رہا ہے کہ مغربی ہواؤں کا اثر محدود ہو گیا ہے، جس کے باعث درجہ حرارت معمول سے زیادہ ریکارڈ کیا جا رہا ہے۔ یہ موسمیاتی عدم توازن عالمی درجہ حرارت میں اضافے، ال نینو (El Nino) اثرات، اور ہمالیائی برفباری میں کمی کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔
سردیوں کی شدت میں یہ کمی صحت کے متعدد مسائل کو جنم دے سکتی ہے:
- وائرس اور بیکٹیریا کی افزائش: عام طور پر سخت سردی میں کئی جراثیم اور وائرس غیر فعال ہو جاتے ہیں، لیکن اگر سردی کم ہو تو موسمی بیماریاں جیسے فلو، ڈینگی اور وائرل انفیکشن زیادہ پھیل سکتے ہیں۔
- الرجی اور سانس کی بیماریاں: سردیوں کی خشک ٹھنڈک میں کم اضافے کے باعث پولن الرجی (Pollen Allergy) زیادہ شدت اختیار کر سکتی ہے، جس سے دمہ اور برونکائٹس (Bronchitis) کے مریض زیادہ متاثر ہو سکتے ہیں۔
- قلبی امراض: کم سردی کے نتیجے میں بلڈ پریشر کے اتار چڑھاؤ میں اضافہ ہو سکتا ہے، جو دل کے مریضوں کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
- ذہنی دباؤ: موسمیاتی تبدیلیاں انسان کے نفسیاتی اثرات کو بھی متاثر کرتی ہیں۔ مسلسل غیر متوقع موسمی حالات سے ذہنی دباؤ، نیند کی خرابی، اور مزاج کی تبدیلی جیسے مسائل بڑھ سکتے ہیں۔
زرعی شعبے میں کم سردی کے اثرات تباہ کن ہو سکتے ہیں۔ شمالی ہندوستان میں گندم کی پیداوار کے لیے کم از کم تین ماہ سردی ایک بنیادی ضرورت ہے۔ اگر درجہ حرارت زیادہ ہو تو گندم کے دانے چھوٹے اور ناقص معیار کے ہو سکتے ہیں، جس سے مجموعی پیداوار میں کمی آئے گی۔
سرسوں، مٹر اور دیگر سردیوں کی فصلیں بھی متاثر ہو سکتی ہیں کیونکہ ان کی نشوونما کم درجہ حرارت پر بہتر ہوتی ہے۔
سردی کی کمی سے سیب، خوبانی اور ناشپاتی جیسے پھلوں کی افزائش متاثر ہو سکتی ہے، کیونکہ یہ پھل مخصوص کم درجہ حرارت پر بہتر بڑھتے ہیں۔
آم اور کیلے جیسے گرم مرطوب موسمی پھل قبل از وقت پھلنے لگیں گے، جس سے ان کے معیار پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ مویشی پالنے والے کسان بھی متاثر ہو سکتے ہیں، کیونکہ ٹھنڈ میں کمی کی وجہ سے دودھ دینے والی گائے اور بھینسوں کی دودھ کی پیداوار میں کمی آ سکتی ہے۔ زرعی پیداوار میں کمی کا براہ راست اثر عوامی معیشت اور زندگیوں پر پڑے گا۔
اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ:
جب فصلوں اور پھلوں کی پیداوار کم ہو جائے گی تو ان کی قیمتیں بڑھ جائیں گی، جس سے متوسط طبقہ اور غریب افراد سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ کسانوں کو کم پیداوار کے باعث معاشی نقصان اٹھانا پڑے گا، جو بالآخر دیہی غربت میں اضافے کا سبب بنے گا۔جب زرعی پیداوار میں کمی ہوگی تو خوراک کی برآمدات بھی کم ہو جائیں گی، جس سے ملکی معیشت کو نقصان پہنچے گا۔ان سب اثرات کے نتیجے میں خوراک کی قلت پیدا ہو سکتی ہے، جو نہ صرف قیمتوں میں مزید اضافے کا سبب بنے گی بلکہ غذائی عدم تحفظ (Food Insecurity) کو بھی بڑھا سکتی ہے۔
تاہم، انسانی سرگرمیوں جیسے کہ جنگلات کی بے دریغ کٹائی، صنعتی آلودگی اور قدرتی وسائل کا بے جا استعمال اس توازن کو بگاڑ رہے ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی، موسمیاتی تبدیلی اور جنگلی حیات کی معدومیت جیسے مسائل براہ راست اس بگاڑ کا نتیجہ ہیں۔ اگر یہ عدم توازن جاری رہا تو زمین پر زندگی کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں، جن میں خوراک کی قلت، پانی کی کمی اور شدید موسمی حالات شامل ہیں۔ متوازن ماحولیاتی نظام کو برقرار رکھنے کے لیے ہمیں متوازن طرزِ زندگی اپنانا ہوگا۔ پودے لگانے، آلودگی کو کم کرنے، قابلِ تجدید توانائی کے ذرائع اپنانے اور فطرت کے تحفظ کے لیے اقدامات کرنے سے ہم زمین کے ماحولیاتی نظام کو مستحکم رکھ سکتے ہیں۔ اگر ہم نے فوری اور مؤثر اقدامات نہ کیے تو مستقبل کی نسلوں کے لیے یہ زمین ایک ناقابلِ رہائش جگہ بن سکتی ہے۔