سعودی عرب میں امریکی، روسی حکام کے مابین اہم مذاکرات، یوکرین کی غیر موجودگی سوالات اٹھا رہی ہے

ریاض میں امریکی اور روسی حکام کے درمیان خفیہ مذاکرات ہوئے، جن میں یوکرین اور یورپ کو شامل نہ کرنے پر عالمی سطح پر تشویش پیدا ہوئی۔ مذاکرات کے بعد روس کو سفارتی برتری حاصل ہوتی دکھائی دی، جبکہ ٹرمپ نے جنگ کے خاتمے کے لیے معاہدے کا عندیہ دیا۔
سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں ہونے والی ایک غیر معمولی ملاقات نے عالمی سفارتکاری کی دنیا میں ہلچل مچا دی ہے۔ بند کمرے میں امریکی اور روسی حکام کے درمیان ہونے والے مذاکرات نے دنیا بھر میں یوکرین اور یورپ کے لیے تشویش کی لہر دوڑا دی، کیونکہ ان مذاکرات میں یوکرین یا یورپ کا کوئی نمائندہ موجود نہیں تھا۔
اس ملاقات میں امریکی حکام کی ٹیم میں سیکرٹری خارجہ مارکو روبیو، نیشنل سکیورٹی مشیر مائیک والٹز اور ٹرمپ کے قریبی دوست سٹیو وٹکاف شامل تھے، جب کہ روس کی جانب سے وزیر خارجہ سرگئی لاورو اور پوتن کے مشیر یوری یشاکو شریک ہوئے۔ سعودی حکام، وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان اور مشیر قومی سلامتی مساعد بن محمد العيبان نے اس ملاقات کی میزبانی کی۔
مذاکرات کے دوران، روس نے واضح طور پر اپنی پوزیشن پیش کی، اور روسی وزیر خارجہ سرگئی لاورو نے کہا کہ وہ یوکرین میں نیٹو کی موجودگی کے مخالف ہیں۔ امریکی حکام نے اس ملاقات سے قبل کہا تھا کہ وہ صرف یہ جاننا چاہتے ہیں کہ روس امن کے قیام کے لیے سنجیدہ ہے یا نہیں۔ لیکن اس سے قبل، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روسی صدر پوتن کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے جنگ ختم کرنے کے حوالے سے کچھ مثبت اشارے دیے تھے۔
سعودی عرب میں ہونے والے اس مذاکراتی دور کے بعد، امریکی سیکرٹری خارجہ مارکو روبیو نے اعلان کیا کہ دونوں فریقین جنگ کے خاتمے کے لیے ایک سنجیدہ عمل کا حصہ بننے پر متفق ہو گئے ہیں۔ تاہم، یوکرین کے صدر نے حیرانی کا اظہار کیا کہ انہیں اس اہم مذاکرات میں مدعو کیوں نہیں کیا گیا، جس پر ٹرمپ نے کہا کہ یوکرین کے پاس تین سال کا وقت تھا، اور وہ جنگ کو روک سکتے تھے۔
دنیا بھر میں اس بات کا تاثر گہرا ہوتا جا رہا ہے کہ روس اب عالمی سفارتکاری کے منظرنامے میں برابری کی سطح پر واپس آ چکا ہے، جبکہ اس بات پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں کہ آیا روس کو اس کی جارحیت کا انعام مل رہا ہے یا نہیں۔
بین الاقوامی ماہرین کا کہنا ہے کہ امن قائم کرنا محض جنگ بندی سے زیادہ پیچیدہ عمل ہے، اور اس کے لیے کئی سالوں کی طویل بات چیت کی ضرورت پڑے گی۔
اس تمام تر صورتحال میں، عالمی برادری کے لیے یہ سوالات ابھر رہے ہیں کہ آیا روس یوکرین کے خود مختاری کو ختم کرنے کے اپنے ارادے سے پیچھے ہٹنے کو تیار ہے، اور کیا ٹرمپ کے ذریعے کیے گئے مذاکرات کسی دیرپا امن کی طرف رہنمائی کریں گے؟