موبائل: تعلیمی ترقی یا ذہنی تنزلی؟

محمد نظام مصباحی ازہری(ایم اے «اردو»، بی ایڈ)
موجودہ دور سائنسی ترقی کا سنہرا زمانہ ہے، جہاں انسانی زندگی جدید ٹیکنالوجی کے حصار میں مقید ہو چکی ہے۔ موبائل فون، جو ابتدا میں محض ایک مواصلاتی سہولت کے طور پر متعارف ہوا تھا، آج علم و حکمت کے گہوارے میں بھی اپنی موجودگی ثبت کر چکا ہے۔ بلاشبہ، یہ آلہ معلومات کی فراہمی میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا موبائل واقعی تعلیمی معاون ہے یا پھر یہ نوجوان نسل کی ذہنی بالیدگی کو نگلنے والا ایک خاموش عفریت؟
موبائل: سہولت یا ذہنی و اخلاقی انحطاط؟
بادی النظر میں موبائل فون ایک انقلابی ایجاد معلوم ہوتا ہے، جو علم کے دروازے ہر خاص و عام پر وا کر دیتا ہے، لیکن اس کی حقیقت کچھ اور ہے۔ یہ سہولت اپنی تمام تر کشش کے باوجود، فکری ارتقا کے لیے ایک مہلک زہر ثابت ہو رہی ہے۔ آج کے طلبہ، جو کبھی کتب بینی، تحقیق اور غور و فکر کے عادی تھے، اب سطحی معلومات، سوشل میڈیا کی لغویات اور تفریحی مشغولیات میں غرق ہو چکے ہیں۔
وہ جو کبھی علم کے بحرِ بیکراں میں غواصی کرتے، تحقیق و تدبر کے موتی چنتے اور اساتذہ کے فیضانِ علم سے سیراب ہوتے تھے، آج موبائل کی اسکرین پر چند سیکنڈز کی ویڈیوز اور فوری جوابات کے عادی ہو کر رہ گئے ہیں۔ نتیجتاً، وہ علمی گہرائی اور فکری بالیدگی سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔
موبائل، فکری زوال کا پیش خیمہ:
موبائل فون کے ذریعے تعلیم کے نام پر جو کچھ طلبہ کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے، وہ محض سطحی معلومات کا ایک سراب ہے۔
- یکسوئی اور ذہنی ارتکاز کی بربادی:
مسلسل موبائل کے استعمال نے طلبہ کی توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت کو شدید متاثر کیا ہے۔ وہ گہرائی میں جا کر کسی بھی موضوع کا مطالعہ کرنے کے بجائے سرسری نگاہ ڈالنے اور فوری نتائج حاصل کرنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ ہر لمحہ نوٹیفیکیشن، سوشل میڈیا اور تفریحی مواد کی کشش انہیں علمی یکسوئی سے کوسوں دور لے جا رہی ہے۔
- کتب بینی اور علمی جستجو کا زوال:
ایک زمانہ تھا جب طلبہ علمی پیاس بجھانے کے لیے لائبریریوں کی خاک چھانتے، کتب کے انبار میں غرق رہتے اور تحقیق و تدقیق میں اپنا وقت صرف کرتے تھے۔ لیکن موبائل کے زیرِ اثر، وہ سہل پسندی کے ایسے دلدل میں پھنس چکے ہیں جہاں چند سیکنڈ کی مختصر ویڈیوز کو مطالعے کا نعم البدل سمجھ لیا گیا ہے۔ نتیجتاً، نہ صرف کتب بینی کا ذوق ختم ہو چکا ہے، بلکہ علمی تجسس بھی دم توڑ چکا ہے۔
- ذہنی سستی اور یادداشت کی کمزوری:
موبائل نے طلبہ کی علمی مشقت کا خاتمہ کر دیا ہے۔ جب ہر سوال کا جواب ایک کلک کی دوری پر ہو، تو غور و فکر اور جستجو کی صلاحیت ماند پڑ جاتی ہے۔ نتیجتاً، ذہنی کاہلی، یادداشت کی کمزوری، اور معلومات کو خود سے یاد رکھنے کی صلاحیت زائل ہو رہی ہے۔
- وقت کا زیاں اور تعلیمی زوال:
موبائل فون کے بے دریغ استعمال نے طلبہ کی تعلیمی زندگی کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ وہ جو وقت مطالعے، تحقیق اور ذہنی نشوونما کے لیے وقف ہونا چاہیے، وہی وقت گیمز، سوشل میڈیا اور فضول تفریح میں ضائع ہو جاتا ہے۔ نتیجتاً، امتحانات میں کارکردگی پست ہو جاتی ہے اور تعلیمی معیار روبہ زوال ہو جاتا ہے۔
- جسمانی صحت کے مسائل:
موبائل کی چمکتی اسکرین نے طلبہ کی آنکھوں پر براہِ راست منفی اثر ڈالا ہے۔ مسلسل اسکرین دیکھنے کے باعث نظر کی کمزوری، سر درد، نیند کی کمی اور ذہنی تناؤ جیسے مسائل عام ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ، جسمانی سرگرمیوں میں کمی کے باعث موٹاپا، سستی اور دیگر جسمانی عوارض میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
- موبائل گیمز اور سوشل میڈیا کی لت:
موبائل فون، جو تعلیمی معاونت کے لیے استعمال ہونا چاہیے، آج گیمز، ٹک ٹاک، یوٹیوب، اور دیگر تفریحی پلیٹ فارمز کا گڑھ بن چکا ہے۔ طلبہ تعلیم کے بہانے موبائل فون ہاتھ میں لیتے ہیں، مگر وہ جلد ہی غیر تعلیمی مشغولیات میں کھو جاتے ہیں۔ یہ نہ صرف ان کی علمی ترقی میں رکاوٹ بنتا ہے، بلکہ ان کی اخلاقی اور ذہنی تربیت پر بھی مہلک اثر ڈالتا ہے۔
- استاد و شاگرد کے تعلقات میں کمزوری:
ماضی میں طلبہ اپنے اساتذہ سے رہنمائی حاصل کرتے، سوالات پوچھتے اور علم کی روشنی سے اپنی راہ روشن کرتے تھے۔ لیکن موبائل فون کے بڑھتے ہوئے استعمال نے اس علمی تعلق کو کمزور کر دیا ہے۔ طلبہ ہر سوال کا جواب انٹرنیٹ پر تلاش کرتے ہیں اور استاد کی رہنمائی کو غیر ضروری سمجھنے لگے ہیں، جس کے باعث ان کی علمی بنیاد کھوکھلی ہوتی جا رہی ہے۔
نتیجہ:موبائل کا محتاط اور دانشمندانہ استعمال ضروری ہے:
موبائل فون ایک سہولت ضرور ہے، لیکن اگر اس کا استعمال غیر متوازن اور بے قابو ہو جائے تو یہ علمی بانجھ پن، ذہنی جمود اور تعلیمی تنزلی کا باعث بن سکتا ہے۔ یہ ایک ایسا خاموش زہر ہے جو نئی نسل کی سوچنے، سمجھنے اور سیکھنے کی صلاحیت کو ختم کر رہا ہے۔
والدین، اساتذہ اور تعلیمی اداروں کو اس مسئلے کا فوری ادراک کرنا ہوگا۔ تعلیمی اصلاحات کے ذریعے موبائل کے بے جا استعمال پر قابو پانا ہوگا، طلبہ میں کتب بینی اور تحقیق کا ذوق دوبارہ پیدا کرنا ہوگا، اور انہیں موبائل کے تعلیمی فوائد سے استفادہ کرنے کے لیے ایک منظم اور متوازن راہ پر گامزن کرنا ہوگا۔ ورنہ، اگر حالات یہی رہے تو ہماری آنے والی نسل محض روبوٹک ذہنوں پر مشتمل ہوگی، جو سوچنے، تدبر کرنے اور علمی ارتقا میں حصہ لینے کی صلاحیت سے عاری ہوگی۔