وقف ترمیمی بل ٢٠٢٥ ایک غیر آئینی و غیر منصفانہ اقدام

منصور الحق سعدی ،علی گڑھ
بھارت کا آئین ہر شہری کو مساوات، مذہبی آزادی اور اقلیتوں کے حقوق کی مکمل ضمانت فراہم کرتا ہے۔ لیکن حالیہ وقف ترمیمی بل ٢٠٢٥ جسے جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی (JPC) نے منظور کیا ہے، نہ صرف ہندوستانی آئین کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی کرتا ہے بلکہ مسلمانوں کے مذہبی حقوق پر ایک براہ راست حملہ بھی ہے۔
بھارت کا آئین اور اقلیتوں کے حقوق
آئین ہند کے مختلف دفعات نہ صرف یہاں رہنے والی مسلم اقلیت کے حقوق کا تحفظ کرتے ہیں بلکہ ان کے وجود کو استحکام بھی فراہم کرتے ہیں۔ لیکن اس بل کے ذریعے کی جانے والی ترامیم مسلم اقلیت کے آئینی حقوق کو مجروح کرتی ہیں۔ اس بل کے مطابق وقف بورڈز میں غیر مسلم اراکین کو نامزد کرنے کی شق شامل کی گئی ہے جو کہ براہِ راست مسلمانوں کے مذہبی امور میں مداخلت کے مترادف ہے۔ وقف ایک اسلامی ادارہ ہے جس کا بنیادی مقصد مسلم فلاحی سرگرمیوں کے فروغ کے لیے جائیدادوں کا تحفظ اور ان کی نگرانی کرنا ہے۔ غیر مسلم اراکین کو وقف بورڈز میں شامل کرنا نہ صرف آئین کی خلاف ورزی ہے بلکہ یہ مسلمانوں کے مذہبی امور میں حکومتی مداخلت کی ایک خطرناک مثال بھی ثابت ہوگی۔
ہندوستانی جمہوریت تکثیریت پسند ہے کیونکہ یہ اس تکثیریت کو اپنے وفاقی ڈھانچے میں، انفرادی حقوق کا ایک مجموعہ تسلیم کرتی ہے اور اس کی تائید کرتی ہے۔ یہ اقلیتوں کو لسانی اور مذہبی حقوق کے حوالے سے بھی آزادی دیتی ہے۔
وقف املاک پر حکومتی کنٹرول: غیر جمہوری فیصلہ
نئی ترامیم کے مطابق وقف کونسل میں مرکزی حکومت کے وزراء، غیر مسلم اراکین، اور دیگر سرکاری افسران کو شامل کیا جائے گا جو کہ ایک منظم طریقے سے وقف املاک پر حکومتی قبضے کی راہ ہموار کرنے کی کوشش ہے۔ مزید برآں، اگر کوئی جائیداد غیر قانونی طور پر کسی کے قبضے میں چلی جاتی ہے، تو وقف بورڈ اس جائیداد پر اپنا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ یہ ایک واضح مثال ہے کہ کس طرح حکومت وقف املاک کو کمزور کر کے انہیں مسلم کمیونٹی سے چھیننے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس سب کے نتیجہ میں کچھ یوں ہوگا کہ اوقاف کی جائیداد برائے نام تو مسلمانوں کی جائیداد کہلائیں گی لیکن ان پر بالواسطہ کنٹرول دوسروں کا رہے گا۔
جمہوری عمل کی پامالی اور یکطرفہ قانون سازی
یہ بل ایک ایسے ماحول میں پیش کیا جا رہا ہے جہاں جمہوری اقدار اور پارلیمانی روایات کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ پارلیمانی کمیٹی میں اس بل پر بحث کے دوران ٤٤/ترامیم اپوزیشن کی جانب سے پیش کی گئیں، لیکن انہیں مکمل طور پر مسترد کر دیا گیا، جبکہ حکمراں جماعت کی ٢٣/ ترامیم کو منظور کر لیا گیا۔ یہ واضح کرتا ہے کہ یہ بل ایک خاص نظریے کے تحت نافذ کیا جا رہا ہے اور اس میں مسلمانوں کے حقوق کے تحفظات کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔
اس غیر جمہوری قانون کو تیزی سے پاس کروانے کے لیے غیر جمہوری ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے اپوزیشن کے ١٠/ اراکین پارلیمنٹ کو معطل کرنا بھی شامل ہے۔ معطل شدہ اراکین میں آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسدالدین اویسی اور ترنمول کانگریس کے کلیان بینرجی بھی شامل ہیں، جو اس بل کی سخت مزاحمت کر رہے تھے۔ یہ رویہ نہ صرف جمہوری اقدار کے خلاف ہے بلکہ اقلیتی آوازوں کو دبانے کی ایک منظم سازش بھی ہے۔
مسلمانوں کے مذہبی اور فلاحی حقوق پر قدغن
وقف ایک ایسا ادارہ ہے جو صدیوں سے مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کر رہا ہے۔ اس بل کے ذریعے وقف کے بنیادی اصولوں میں تبدیلی کی جا رہی ہے، جس میں مسلمانوں کے لیے عطیات دینے کی شرائط رکھی گئی ہیں۔ خاص طور پر اس شق میں کہا گیا ہے کہ وقف کے لیے جائیداد وقف کرنے والے کو کم از کم پانچ سال سے عملی طور پر مسلمان ہونا ضروری ہوگا۔ یہ شرط مذہبی آزادی کے بنیادی حق کے خلاف ہے اور ایک غیر آئینی پابندی کے مترادف ہے۔
یہ بل اگر قانون کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے تو اس کا ہندوستانی مسلمانوں پر منفی اثر پڑے گا۔مسلمانوں کے مذہبی اداروں پر حکومتی کنٹرول بڑھ جائے گا۔وقف املاک کی خود مختاری ختم ہو جائے گی ۔اقلیتوں کے حقوق پامال کیے جائیں گے اور ان کے مذہبی آزادی کے حق کو محدود کیا جائے گا۔جمہوری نظام پر عوام کا اعتماد مزید کمزور ہو جائے گا۔بھارتی آئین کی روشنی میں دیکھا جائے تو وقف ترمیمی بل ٢٠٢٥ ایک غیر آئینی، غیر جمہوری اور اقلیتی حقوق کی خلاف ورزی پر مبنی قانون ہے۔ اس بل کے ذریعے مسلمانوں کے مذہبی اداروں کو کمزور کرنے، ان پر حکومتی کنٹرول مسلط کرنے، اور اقلیتوں کے حقوق کو سلب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔حکومت کو چاہیے کہ وہ اس بل کو فوری طور پر واپس لے اور اقلیتی برادریوں کے ساتھ مشاورت کر کے ان کے مذہبی اور فلاحی اداروں کو مزید مضبوط بنانے کے اقدامات کرے، نہ کہ ان پر غیر آئینی پابندیاں عائد کرے۔