اردو کونسل ہند سیوان نے وزیراعلیٰ نتیش کمار کو ۱۸ نکاتی میمورنڈرم بھیجا

سیوان، بہار
سیوان 26 جنوری 2025 کو اردو کونسل ہند، سیوان کی جانب سے ایک اہم نشست کا اہتمام کیا گیا۔ زاک ملٹی اسپیشلٹی ہاسپٹل، سیوان میں منعقد اس نشست کی صدارت ڈاکٹر خواجہ احتشام احمد نے کی، جو کونسل کے صدر بھی ہیں۔ کونسل کی مجلسِ عاملہ کی یہ پہلی اور بہت خاص نشست تھی۔ ابتدا میں کونسل کے ناظمِ اعلیٰ ڈاکٹر زاہد سیوانی نے کونسل کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کونسل کے تمام تر ذمے داران کا تعارف جامع انداز میں پیش کیا۔ مجلسِ عاملہ کے سبھی ارکان نے اردو زبان کے ساتھ ہو رہی ہے نا انصافیوں کا اپنے اپنے طور پر ذکر کیا۔ اردو کے عُمومی مسائل پر بھی توجہ دلائی گئی۔ یہ طے پایا کہ اردو کونسل ہند نے 18 نکاتی مطالبہ نامہ جو وزیرا اعلیٰ نتیش کمار جی کو بھیجا ہے، اس کی کاپیاں تمام مدارس کو بھیجی جائیں۔ تحفظِ اردو کے لیے عملی اقدامات کی سخت ضرورت ہے۔ اردو کسی مذہب و مسلک کی زبان نہیں ہے، بلکہ یہ ہندوستان کی زبان ہے یہ ثابت کرنے کی ضرورت ہے۔ اسکولی سطح پر اردو کی حالت خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی ہے اس سلسلے میں اساتذہ کو بیدار کرنا بہت ضروری ہے۔ اس کے لیے ورکشاپ انعقاد ہونا چاہیے۔ اردو کی ترقی کے لیے صرف سرکاری مُراعات پر بھروسہ کرنا مناسب نہیں ہے، اس کے لیے پرائیویٹ طور پر محلے،محلے اردو لرننگ سینٹر کا قیام بھی ہونا چاہیے۔ کونسل کے ایک اہم رکن جناب شاہ اعظم نے دو اہم نکات کی طرف توجہ دلائی کہ اسکول میں اردو کے بہت سارے اساتذہ اردو نہیں پڑھاتے، وہ اردو ہی پڑھائیں تو بہتر ہے۔ اس کے علاوہ آپار میں مادری زبان کے کالم میں اسکول کے ہیڈ ماسٹر یا اساتذہ ہندی کا اندراج کر رہے ہیں۔ اس کی خبر نہ طلبہ کو ہے اور نہ ان کے سرپرستوں کو۔ یہ کام طلبہ اور ان کے سرپرست کی مرضی کے مطابق ہونا چاہیے۔ شہر کے اقلیتی ادارے داؤد میموریل ہائی اسکول کے پرنسپل نے اردو کے ساتھ حکومت کی جانب سے کیے جا رہے سوتیلے سلوک کا ذکر تو کیا ہی، ساتھ ہی انھوں نے اردو سے اردو والوں کی بے توجہی پر بھی بھر پور روشنی ڈالی۔ ڈاکٹر زینب ناز نے اپنی گفتگو میں کہا کہ اردو ماؤں کی گود سے غائب ہوتی جا رہی ہے، یہ بڑا المیہ ہے۔ خواتین اس جانب توجہ دیں تو بچوں کے اندر اردو سے رغبت بھی پیدا ہوگی اور ان کا تلفظ بھی بہتر ہوگا۔ جناب سجاد علی اور جناب فیض علی فیضی، اردو کے معلّم ہیں۔ اِنھوں نے بھی اردو تدریس کی راہوں میں آنے والی دشواریوں سے سامعین کو آگاہ کیا۔ راجا سنگھ کالج، سیوان کے صدر، شعبۂ اردو جناب امتیاز سرمد نے یہ بتانے کی کوشش کی کہ اردو والوں کے لیے روزگار کی کمی نہیں ہے۔ ساتھ ہی انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ سماجی اور سرکاری ہر دو سطح پر اردو کے جو مسائل ہیں، اردو والے ان سے بے خبر ہیں۔ یہ غفلت اردو تہذیب اور اردو زبان دونوں کے لیے سمِّ قاتل ہے۔
اخیر میں ڈاکٹر خواجہ احتشام احمد نے اپنی صدارتی گفتگو میں کونسل کے ذریعے حکومتِ بہار کو بھیجے گئے 18 نکاتی مطالبات نامہ پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ انھوں نے اپنی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ریاستِ بہار میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے، اس کے باوجود یہاں اردو کے ساتھ سازش کی جا رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ چھے برسوں سے اردو اکادمی کی تشکیل نو کا معاملہ زیرِ التوا ہے۔ 12 ہزار اردو ٹی ای ٹی کے امیدواروں کا رزلٹ جاری نہیں کیا جا رہا ہے۔ اردو اخبارات کو ہندی میں اشتہارات مہیا کرائے جارہے ہیں۔ مدرسہ بورڈ کی تشکیلِ نو نہیں ہو پا رہی ہے۔ اقلیتی کمیشن کی تشکیلِ نو اور اس کے چیرمین کی بحالی بھی ایک بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔ ڈاکٹر خواجہ احتشام احمد نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ کونسل کے ذریعے پیش کیے گئے مطالبات پر حکومتِ بہار سنجیدگی سے توجہ دے گی۔ بصورتِ دیگر اردو والے احتجاج کرنے پر مجبور ہوں گے، یہ لڑائی اس وقت تک جاری رہے گی جب تک ہمارے مطالبات پورے نہیں ہو جاتے!
نشست میں جناب محمد صادق، جناب ریاض احمد، جناب محمد فہیم خان، جناب امجد حسین، جناب عارف عباس، جناب محمد بلال، حافظ عبدالرحمٰن، جناب خورشید علی، مولانا ظفر کے علاوہ دیگر معزز شخصیات نے شرکت کی۔