شیخ نور قطب عالم پنڈوی حیات اور کارنامے کی رسم اجرا پر تحدیث نعمت

بشارت علی صدیقی
24 جنوری 2025 کو مخدوم اشرف مشن، مدینۃ الاولیاء پنڈوہ شریف، مغربی بنگال میں عرس مخدوم العالم علاء الحق لاہوری پنڈوی چشتی نظامی سراجی علیہ الرحمہ اور جشن دستار فضیلت منایا گیا۔ اس دو روزہ اجتماع میں ہزاروں علما اور عوام الناس نے شرکت کر کے حضرت مخدوم العالم علیہ الرحمہ کا فیضان علمی و روحانی اپنے حصہ میں کیا۔
عرس کے دوسرے روز، مؤرخ صوفیہ صافیہ، پیکر اخلاص و استقامت، جامع معقول و منقول، مُسنِد بنگال، استاذ العلماء حضرت علامہ مولانا مفتی عبد الخبیر اشرفی مصباحی صاحب قبلہ کی تازہ ترین 320 صفحات پر مشتمل تحقیقی کتاب “شیخ نور قطب عالم پنڈوی – حیات اور کارنامے” کا رسم اجرا عمل میں آیا۔
کتاب کی رسم اجرا، شہزادہ غوث اعظم، مظہر کمالاتِ اولیاء، جلالۃ العلم و الفضل، صوفی باصفا، سربراہ اعلی مخدوم اشرف مشن، جانشین تاج الاصفیاء و اشرف الاولیاء، حضور تاج الاولیاء حضرت ڈاکٹر علامہ سید محمد جلال الدین اشرف اشرفی جیلانی کچھوچھوی صاحب قبلہ نے اپنے مبارک ہاتھوں سے فرمایا، بے شمار محبتوں کا اظہار فرمایا، مصنف حضرت علامہ مفتی صاحب قبلہ کو خاص طلب فرما کر معانقہ فرمایا، کتاب کی تصنیف و اشاعت پر مبارک باد دی، اور دوران خطاب کتاب کی بے شمار خوبیوں پر روشنی ڈالی، مفتی صاحب قبلہ کو “محب صادق اور الاعز الارشد” کے الفاظ سے تعارف کروایا اور فرمایا کہ: “اگر مفتی صاحب اس کتاب کو یونی ورسٹی کے لیے لکھتے تو اس پر انہیں پی ایچ ڈی دی جاتی۔” حضور تاج الاولیاء کی یہ ادا ہمیں بھا گئی، آنکھوں میں آنسو آگئے! مفتی صاحب قبلہ کی خدمات اور قسمت پر رشک آنے لگا۔ کیا آپ نے موجودہ زمانے میں مشائخ کو دیکھا ہے کہ اس طرح مصنفین یا اپنے چھوٹوں کی حوصلہ افزائی اور اصاغر نوازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے؟ یقیناً یہ حضرت تاج الاولیاء کی ذرہ نوازی ہے، ان کی نظر کرم ہے، عنایت لطف و کرم ہے جو ان ہی کا حصہ ہے، جو انہیں ان کے بزرگوں اور والد گرامی حضور اشرف الاولیاء علیہ الرحمہ کی بافیض صحبت، تربیت اور عنایت سے حاصل ہوا ہے۔
ناشر اور مصنف کی جانب سے کتاب کے 30 نسخے “مخدوم اشرف مشن” کی خدمت میں پیش کیے گئے، حضرت تاج الاولیاء نے 5 کتابوں پر خود دستخط فرمائے، اور مہمان خصوصی شہزادہ محدث اعظم ہند، سجادہ نشین بارگاہ مخدوم ملت، غازی ملت حضرت علامہ مولانا سید محمد ہاشمی اشرفی جیلانی کچھوچھوی صاحب قبلہ سے بھی دستخط کرواکر، اسے ناظم اجلاس کے سپرد کیا، اور ان کتابوں کی بولی لگائی گئی جس میں ایک نسخہ 7786 روپے، دو نسخے 6000 روپے اور دو نسخے 5000 ہزار روپے میں لیے گئے اور یہ ساری رقم “مخدوم اشرف مشن” کے لیے پیش کی گئی۔ الحمد للہ رب العالمین!
حضرت مفتی عبد الخبیر اشرفی مصباحی صاحب قبلہ کی یہ تصنیفی خدمات کئی جہات سے اہم ہیں۔ اس حقیقت کا اعتراف کرنے اور سمجھنے کے لیے ہمیں مسلم اور غیر مسلم اغیار کی فن تاریخ و ثقافت پر کتابوں کی معلومات ہونی چاہیے۔
ہماری بھولی بھالی سیدھی سادھی جماعت یہ بھول جاتی ہے کہ بر صغیر میں اغیار اور بد مذہبوں نے اپنی پہچان تاریخ نگاری اور تذکرہ نگاری کی بنیاد پر بھی کافی بنائی ہے۔ بر صغیر سے لے کر عالم عرب تک ان کی سینکڑوں کتابیں ان موضوعات پر موجود ہیں۔
آپ دیکھیں گے کہ تاریخ پر زیادہ تر کام انہی کے حلقے سے ہوا ہے، چاہے وہ تاریخ اسلام ہو، یا تاریخ ہند، یا عرب اور ہندوستان کے تمدنی اور سیاسی تعلقات ہوں یا تاریخ صوفیا ہو۔ جرائد کے جرائد تذکرہ نگاری اور تاریخ نگاری پر مشتمل مقالات اور مضامین پر ملتے ہیں، دار المصنفین جیسے ادارے قائم کیے گئے، شبلی نعمانی کی ۸۰ فیصد کتابیں انہی موضوعات پر ہیں، ڈاکٹر خلیق احمد نظامی، پروفسر ایوب قادری، ڈاکٹر نسیم احمد فریدی امروہی، جناب اخلاق احمد دہلوی، قاضی اطہر مبارک پوری، سید ابو الحسن علی ندوی یا دیگر ندوی مصنفین ہوں، ان کی تاریخ و تذکار پر کتابیں ہر کوئی جانتا ہے اور مطالعہ میں رکھتا ہے۔
اس کے مقابل میں ہم اہل سنت کے مصنفین کو کافی پیچھے پائیں گے۔
ہمارے اکثر مصنفین نے اپنی کتابوں کو صرف قصہ کہانیوں، بغیر حوالہ بے سر و پا واقعات اور کرامتوں تک محدود رکھا ہے۔ ان میں سے اکثر کتابیں تحقیقی اسلوب اور اصول تاریخ نگاری سے خالی ہوتی ہیں۔
عزیزوں، میں نے یہ ایک خود احتسابی نظر ڈالی ہے۔ تنقید برائے تنقید نہیں ہے۔ اس زاویہ نظر سے اہل سنت کو سوچنا چاہیے، اپنا جماعتی جائزہ لینا چاہیے۔
ان کمیوں کو دیکھتے ہوئے اور انہی وجوہات کی بنا پر اشرفیہ اسلامک فاؤنڈیشن، حیدرآباد دکن نے اسلاف شناسی پر باقاعدہ کام شروع کیا، اس میں ہمیں سالوں سال کی محنت کرنی پڑی، مواد جمع کرتے کرتے ایک زمانہ گزر گیا۔
جس زمانے میں ہم نے یہ شعبہ شروع کیا تھا، اور کتابیں اور مواد جمع کر رہے تھے، اس زمانے میں آرکائیو، ریختہ اور معرفت جیسی ویب سائٹس پر بھی اتنی کتابیں نہیں ہوا کرتی تھیں۔ مجھے یاد ہے کئی کئی ماہ ایک ایک کتاب کے پیچھے لگ جاتا تھا کہ کوئی کہیں سے اسے اسکان کرکے بھیج دے یا فوٹو کاپی فراہم کرادے۔ یہ داستان میں الگ سے کبھی لکھوں گا، اس میں کئی علما و مشائخ کی جد وجہد اور ہمارا علمی تعاون فرمانے کے واقعات درج ہوں گے۔ ان شاءاللہ تعالی۔
دیکھا گیا ہے کہ عام طور پر اسلاف شناسی میں اکثر لوگ صرف ایک دو صدی تک ہی اپنے آپ کو محدود رکھتے ہیں۔ ہم نے ایسا کبھی نہیں کیا اور نہ آگے کریں گے۔ ہمیں جب جس طرح جو کام ہوتے نظر آیا، ہم نے بڑھ چڑھ کر اس میں حصہ لیا۔ اگر کسی شخصیت پر کوئی کام کرنے والا مل گیا، یا کرنا چاہتا ہے، ہم نے مواد سے لے کر اشاعت تک کا کام اپنے سر لے لیا، بس چاہا کہ کسی طرح کام ہوجائے۔ خیر، تحدیث نعمت کے طور پر عرض کرنا تھا کہ ہم نے اسلاف شناسی میں اپنا دائرہ محدود نہیں رکھا۔
انہی بزرگوں کی برکت اور توجہ خاص رہی کہ یہ ادارہ چل رہا ہے۔ ہم نے سب سے پہلے حضرت علامہ مفتی ساجد علی مصباحی صاحب قبلہ سے فرمائیش کرکے “ملک العلماء قاضی شہاب الدین دولت آبادی علیہ الرحمہ” کی حیات و خدمات پر ایک تحقیقی کتاب تیار کروائی۔ پھر یہ سلسلہ دراز ہوتا گیا:
اس شعبہ تاریخ اور اسلاف شناسی میں اب تک کے ہونے والے کام کو یہاں اختصار کے ساتھ پیش کرتے ہیں:
1) “ملک العلماء قاضی شہاب الدین دولت آبادی”، مصنفہ حضرت علامہ مولانا مفتی ساجد علی مصباحی صاحب قبلہ۔
2) “حیات مخدوم العالم علاء الحق لاہوری پنڈوی چشتی علیہ الرحمہ”۔ از علامہ مفتی عبد الخبیر اشرفی مصباحی صاحب قبلہ۔
3) امام ابن جوزی کی “مناقب معروف الکرخی و اخبارہ” کا پہلا ترجمہ از علامہ مولانا شبیر حسین مصباحی ازہری بنام “مناقب معروف کرخی”۔
4) “آئینہ ہندوستان اخی سراج الدین عثمان- احوال و آثار” از علامہ مفتی عبد الخبیر اشرفی مصباحی صاحب قبلہ۔
5) “احوال و آثار- شیخ جلال الدین سہروردی تبریزی” از علامہ مفتی عبد الخبیر اشرفی مصباحی صاحب قبلہ۔
6) “ارشادات مخدوم العالم شیخ علاء الحق پنڈوی”۔ از علامہ مفتی عبد الخبیر اشرفی مصباحی صاحب قبلہ۔
7) امام ابن جوزی کی “آداب الحسن البصری و زھدہ و مواعظہ” کا پہلا اردو ترجمہ بنام “امام حسن بصری- فضائل و مناقب” از علامہ مفتی عطاء النبی حسینی مصباحی ابو العلائی صاحب قبلہ۔ (یہ ان شاءاللہ تعالی امسال شائع ہوگی)
8) سیرت امام بشر الحافی، جو ۸۰۰ صفحات پر مشتمل امام بشر الحافی علیہ الرحمہ پر ایک شاہ کار تذکرہ ہے، از فاضل بنگال، جامع معقول و منقول حضرت علامہ مولانا حافظ میزان الرحمن علائی صاحب قبلہ۔ امسال شائع ہوگی ان شاءاللہ تعالی۔
9) “قندیل معرفت” لکھنؤ کے سب سے پہلے اور عظیم بزرگ خلیفہ حضرت چراغ دہلی، حاجی الحرمین حضرت قوام الدین عباسی دہلوی علیہ الرحمہ کی حیات و خدمات پر 350 صفحات پر مشتمل تاریخی کتاب از علامہ ڈاکٹر سید نور محمد علیمی مصباحی لکھنوی صاحب قبلہ۔
10) “شاہ عبد اللہ شطار- احوال و آثار” جسے راقم الحروف نے ترتیب دیا ہے۔
اس فہرست سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ حضرت مفتی عبد الخبیر اشرفی مصباحی صاحب قبلہ نے اسلاف شناسی میں کتنے اہم کتابیں تحریر فرمائی ہیں اور کس جدت اور محنت کے ساتھ انہیں پائے تکمیل تک پہنچا کر شعبہ تاریخ صوفیا میں گراں قدر اضافہ فرمایا ہے۔ اللہ تعالی حضرت مفتی صاحب قبلہ کو سلامت رکھے اور ان سے مزید دینی اور تحریری کام لیتا رہے۔ آمین بجاہ سید المرسلینﷺ۔