کتاب : آئینہ پنڈوہ

مصنف : علامہ ذاکر حسین جامعی غفرلہ
ناشر :تاج الاصفیا دار المطالعہ، مخدوم اشرف مشن پنڈوہ شریف،مالدہ بنگال
مبصر : دانش علائی سلی گوڑوی
فاضل: مخدوم اشرف مشن
استاد: مدرسہ جلالیہ اسلامیہ ایجوکیشنل انسٹی ٹیوٹ، دیوتالہ، مالدہ، بنگال۔
’’پنڈوہ شریف ‘‘مغربی بنگال کے شہر مالدہ سے جانب شمال واقع ایک غیر معمولی شہرت کا حامل تاریخی خطہ ہے جس سے زمانہ ماضی کی نہ صرف بہت سی یادگاریں جڑی ہوئی ہیں بلکہ قدم قدم پر موجود یہاں کی دیدہ زیب بلند و بالا عمارتیں ، قدیم و تاریخی مساجد، بے شمار شاہی محلات کے کھنڈرات ، عظیم علمی و روحانی خانقاہیں، اولیائے چشت اہل بہشت کی قدیم چلہ گاہیں اور بےشمار صوفیا و اولیا کے مزارات و مقبریں آج بھی پنڈوہ کی تاریخی، علمی، ادبی، تہذیبی و ثقافتی حیثیت اور عظمت رفتہ کا ببانگ دہل اعلان کر رہے ہیں؛ اور یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ اس خطے کو کئی دہائیوں تک بنگال کا دار السلطنت رہنے کا شرف حاصل رہا ہے۔
لیکن افسوس کہ وہ علاقہ جو نہ صرف عہد رفتہ میں کثیر صوفیا و اولیا کا مولد و مسکن رہا ہے بلکہ ایک لمبے عرصے تک رشد و ہدایت اور دعوت و تبلیغ کا مرکز ہونے کا شرف بھی اسے ملتا رہا ہے، جہاں کا گوشہ گوشہ سیاسی، سماجی، علمی ادبی، روحانی اور تہذیبی اقدار کا علم بردار ہے اس کی ہمہ گیر تاریخ پر ابھی تک باضابطہ طور پر کوئی مبسوط اور جامع کتاب منظر عام پر نہیں لائ گئ تھی ۔
رب العالمین کا شکر و احسان ہے کہ اس کی عظمت رفتہ کو اجاگر کرنے کے لیے اس نے ہمارے استاد گرامی حضرت علامہ مفتی ذاکر حسین اشرفی جامعی صاحب قبلہ غفرلہ [استاد: مخدوم اشرف مشن، پنڈوہ شریف، مالدہ ، بنگال] کا انتخاب فرمایا جنھوں نے اپنی درسی مصروفیات کے باوجود بڑی عرق ریزی و باریک بینی، محنت و مشقت اور بسیار تلاش و جستجو کے بعد زیر نظر کتاب کو ترتیب دینے کا شرف حاصل کیا ہے جو آج آپ کے ہاتھوں میں ” آئنیہ پنڈوہ ” کے نام سے موجود ہے. تمام عقیدت مندوں کی طرف سے عموماً اور وابستگان سلسلہ چشتیہ کی جانب خصوصاً فاضل مصنف یقیناً اس کے لیے لائق مبارک باد اور قابل داد و تحسین ہیں۔
تاریخ پنڈوہ پر لکھی جانی والی یہ پہلی تحقیقی و تصنیفی اور انتہائی جامع و کثیر المعلومات کتاب ہے جو ہر جہات سے انتہائی وقیع اور قابل قدر ہے۔ اس میں موجود خام مواد کی دستیابی کے لیے فاضل مصنف نے کس حد تک تلاش و جستجو سے کام لیا ہے اس کا اندازہ آپ ماخذ و مصادر کی طویل فہرست سے لگا سکتے ہیں۔ کتاب میں موجود تقریظات و تاثرات اور مقدمہ کے علاوہ کتاب کی موزوں ابواب بندی سے ہی مصنف کی تصنیفی خوش اسلوبی اور سلیقہ بندی کا پتا چلتا ہے۔ساتھ ہی میں یہ بات کہنے میں اپنے آپ کو حق بجانب محسوس کرتا ہوں کہ یہ کتاب صوفیائے بنگال پر خامہ فرسائی کرنے والے بعد کے تمام مصنفین کے لئے بنیادی ماخذ کی حیثیت رکھے گی۔ان شاء اللہ العزیز
عام مصنفین کی طرح فاضل مصنف نے بھی اس کتاب کی ابتدا ایک طویل فہرست سے کی ہے۔ اس کے بعد شرف انتساب، قطعہ تاریخ، صدائے دل اور صاحبان جبہ و دستار و ارباب فکر و نظر کے تقریظات و تاثرات اور ایک شاندار مقدمہ شامل کتاب ہے۔فاضل مصنف نے تین ابواب پر پوری کتاب کو تقسیم کیا ہے اور تیسرے باب کے اختتام پر مخدوم اشرف مشن کا تعارف، مصنف کی مختصر سوانح عمری اور مصادر و مراجع درج ہے اور کتاب کا سب سے آخری صفحہ انتہائی اہم اور لائق زیارت ہے جو کتاب کی عظمت و مقبولیت میں اضافہ کرنے کا سامان فراہم کرتا ہے یعنی حضرت حافظ زاہد بندگی علیہ الرحمہ کے دست مبارک سے تحریر کردہ قرآن عظیم کے قلمی نسخے کا عکس جو برسوں تک پردہ خفا میں تھا بڑی کوششوں کے بعد فاضل مصنف کو یہ حاصل ہوا تو انہوں نے اسے اپنی کتاب کی زینت بنانا مناسب سمجھا تاکہ عقیدت مند اس کی زیارت سے مشرف ہو سکیں۔
باب اول بنگال کی تاریخی و تہذیبی اور معلوماتی حالات پر مشتمل ایک اہم باب ہےجس میں آپ تاریخ بنگال پر ایک نظر، فتح بنگال اور مسلمانوں کی بنگال آمد، پنڈوہ تاریخ کے تناظر میں، پنڈوہ کے قدیم اور تاریخی نام ، پنڈوہ کی سیاسی حیثیت، استاد نور قطب شیخ حمید الدین ناگوری معروف رضا بیابانی کا مختصر تذکرہ ، پنڈوہ کی تاریخی عمارتیں خصوصاً آدینہ مسجد، گول گھر، ایک لکھی مقبرہ، سونا مسجد، میٹھا تالاب، خانقاہ علائیہ میں موجود تبرکات کی تفصیل ، پنڈوہ کے تاریخی کتبات وغیرہ جیسے زیلی عناوین اسی باب میں ملاحظہ کئے جا سکتے ہی۔
باب دوم روحانیات کے بیان میں ہے۔ اس باب میں پنڈوہ کو اپنے قدوم میمنت لزوم سے شرف یاب کرنے والے فرزندان توحید کے احوال و کوائف تفصیلا مذکور ہیں۔ خصوصاً شیخ جلال الدين تبریزی علیہ الرحمہ جو بنگال کے اولین مبلغ اسلام اور سلسلہ سہروردیہ کے عظیم بزرگ ہستی کی حیثیت سے اپنی شناخت رکھتے ہیں اور بابر فرید الدین مسعود گنج شکر کے مرید صادق حضرت نظام الدین اولیاء کے رفیق و خلیفہ یعنی صاحب ھدایۃ النحو حضرت اخی سراج الدین عثمان آئینہ ہند علیہ الرحمہ کا تذکرہ خصوصیت کے ساتھ اس باب میں شامل ہے. پنڈوہ کی بڑی درگاہ میں موجود تبرکات اور وہاں کی قدیم عمارتیں مثلاً لکھن سینی دالان، بھنڈار خانہ، تندور خانہ، سلامی دروازہ، کے حوالے سے اچھی اور معلوماتی گفتگو اس باب میں آپ پڑھ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ولایت بنگال، پنڈوہ شریف کی روحانی عظمت، شیخ جلال الدين تبریزی کی پنڈوہ آمد، شیخ جلال الدين تبریزی کے چلہ خانے، چلہ گاہ نور قطب عالم، سلامی دروازہ، حضرت اخی سراج الدین عثمان آئینہ ہند ،آئنیہ ہند کی بنگال سکونت، ،وفات و مدفن، مخدوم شیخ رجا بیابانی، اور بول باڑی کی وجہ تسمیہ” جیسے اہم موضوعات کا آپ اس باب میں مطالعہ بھی کر سکتے ہیں. نیز اسی باب کے مطالعہ کے بعد آپ کو یہ بھی معلوم ہوگا کہ شیخ جلال الدین تبریزی کی پنڈوہ آمد سے قبل یہاں کفر و شرک کے بازار گرم تھے، دیوی دیوتاؤں کی پرستش عام تھی، چاروں طرف صبح و شام گھنٹی کی آواز سنائی دے رہی تھی لیکن شیخ جلال الدین تبریزی نے اپنے اخلاق و کردار کا ایسا نمونہ پیش فرمایا کہ نہ صرف ہزاروں لوگ آپ سے متاثر ہوکر حلقہ بگوش اسلام ہوئے بلکہ راجا لکھن بھی آپ کا گرویدہ ہو کر رہ گیا . باب سوم: یہ انتہائی طویل باب ہے۔ اس باب کی ابتداء “بنگال میں خانقاہ چشتیہ علائیہ کا آغاز و ارتقاء” کے مرکزی عنوان سے ہوتی ہے۔ اس باب میں آپ پنڈوہ شریف میں مدفون بزرگوں کے حالات خصوصاً بزرگان پنڈوہ سے ارادت و عقیدت رکھنے والے افراد کا تذکرہ، حضرت مخدوم العالم علاء الحق پنڈوی علیہ الرحمہ کے خاندان کا سلاطین وقت سے تعلقات، خانقاہ مخدوم العالم کے لیے شاہی عطیات، خانقاہ علائیہ کا بہار کے کئی خانقاہوں سے روابط و تعلقات وغیرہ، اسی باب میں مطالعہ کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ خانقاہ چشتیہ علائیہ، شش ہزاری درسگاہ، خانقاہ مخدوم العالم کی مہمان نوازی، حضرت مخدوم العالم کا خاندانی پس منظر و پیش منظر، مخدوم العالم شیخ علاء الحق والدین گنج نبات، ولادت باسعادت ، جلالت علمی، قوت سلب، گنج نبات کی وجہ تسمیہ، مخدوم العالم کی وجہ تسمیہ، خدمت شیخ، محبت اہل بیت، مخدوم العالم سے متعلق غوث العالم کے تاثرات، بشارت غوثیت، فرزند معنوی کی بشارت، اقوال عارفانہ، رسم گاگر بھری کی ابتداء، زوجہ مخدوم العالم، مخدوم العالم کے اہل سسرال کی دنیاوی عظمت، مخدوم العالم کے اہل سسرال کی چند باکمال ہستیاں، حافظہ جمال کا نسب پدری اور بہار شریف آمد، اولاد و امجاد، حضرت مخدوم سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی ، حضرت قطب عالم نور الحق والدین، ولادت با سعادت، جائے پیدائش، علمی کمالات، شعر و سخن، مکتوب نگاری، انیس الغرباء، مونس الفقراء، اقوال عارفانہ، قوت پرواز، دیدار خدا و رسول، بشارت نبوی، شیخ افقہ الدین، حضرت شیخ انور شہید خلیفہ قطب عالم حضرت شیخ حسام الدین مانک پوری، حافظ زاہد بندگی، کالو دیوان جی، داماد مخدوم العالم ، سید فرید الدین طویلہ بخش، سید ابراھیم کی پنڈوہ آمد و تکمیل تعلیم، مولانا تاج الدین اصفہانی، ارادت مندان بزرگان پنڈوہ ، آسان پیر شہید، حضرت پیر بنگڑی، مرد حق آگاہ شاہ فیض اللہ چشتی، حضرت غلام حیدر، مخدوم شاہ غلام شمس الدین، مخدوم شاہ عطا نرائن پوری ثم کھگڑاوی، مخدوم سید عظمت اللہ چشتی، سید شاہ احسن اللہ چشتی، شیخ محمد ارشد عثمانی، تاریخ پنڈوہ میں انقلاب برپا کرنے والے سہروردی مبلغین، شیخ احمد ابن یحی دمشقی سہروردی، سید فیروز شاہ سہروردی، حضرت شرف الدین بلخی سہروردی، جیسے معلوماتی عناوین اسی باب میں شرح و بسط کے ساتھ لائق مطالعہ ہیں۔