میری تمنا

رمانہ تبسم
پٹنہ
نشرہ تیسری جماعت کی طالبہ تھی۔وہ بہت ہی ذکی فہم تھی۔اس عمر میں بچے ہم عمر دوستوں کے ساتھ کھیلنا پسند کرتے ہیں،لیکن اسے کھیلنے سے زیاہ فلکیاتی علوم میں دلچسپی تھی۔وہ کھلے آسمان کے نیچے بیٹھ کر چاند‘ ستاروں کو غور سے دیکھتی رہتی اور ان سے باتیں کرتی چاند‘ ستاروں کو دیکھ کر اس کے ذہن میں کئی طرح کے سوالات امنڈ پڑتے۔جب اس کے ابو دفتر سے گھر واپس آتے،جلدی سے ان کے ہاتھ سے بیگ لیگ لیتی۔ان کے مقابل چلتی ہوئی ڈھیر سارے سوالات کرتی۔
”ابو ہم لوگ جہاں جاتے ہیں چاند بھی ہمارے ساتھ کیوں چلتا ہے،کیا چاند کو بھی ہم لوگوں کی طرح پیر ہوتے ہیں؟“
نشرہ کی بات سن کرابو زور دار قہقہے لگاتے ہوئے بولے۔”ارے نہیں نشرہ بیٹی یہ تمہیں کس نے بتائی کہ چاند کو پیر ہوتے ہیں۔“
”کسی نے نہیں بتائی ہے بلکہ میں نے خود غور کیا ہے۔“
”اچھا تو میری بیٹی کو لگتا ہے کہ چاند کو بھی ہم لوگوں کی طرح پیر ہوتے ہیں۔“
”جی ابو جان!تبھی تو وہ ہم لوگوں کے ساتھ چلتا ہے۔“نشرہ نے اپنی گول گول آنکھیں گھماتے ہوئے کہا۔
”تمہاری جانکاری کے لیے بتا دوں کہ چاند کو پیر نہیں ہوتے ہیں بلکہ زمین اس کی گردش کرتی رہتی ہے اور تمام نظام شمسی کے چکر لگاتی ہے۔“
”ابو جان!نظام شمسی کسے کہتے ہیں۔
نظام شمسی سورج اورتمام اجرام فلکی کے مجموعے کو کہتے ہیں،جو براہ راست یا بالواسطہ طور پر سورج کی نقلی گرفت میں ہیں اور اس میں ۸ سیارے ہیں،ان کے نام ہیں۔عطاور‘مریخ‘زہرا‘مشتری‘ زحل‘ہرشیل‘ زمین اورنیمچیون، نظام شمسی ان تمام سیاروں کی گردش کرتی رہتی ہے،نیپچیون نظام شمسی کا سب سے چھوٹا سیارہ ہے۔
ابوجان! چاند کتنا بڑا ہے اور ہم لوگوں سے کتنی دور ہے، یہ دن میں کیوں نظر نہیں آتاہے، ہمیشہ ایک سا کیوں دیکھائی نہیں دیتا ہے،کبھی full moonاور کبھی half moonکیوں نظر آتا ہے؟“نشرہ ایک ساتھ کئی سوالات پوچھ بیٹھی۔اس کے تمام سوالوں کو غور سے سننے کے بعد مسکراتے ہوئے اس کی طرف دیکھا۔پھر بولیں؛
”نشرہ بیٹی!چاند ہم لوگوں سے دو لاکھ انتالیس ہزار فاصلے پر ہے،چاند اور ستارے دن میں بھی نکلتے ہیں مگر۔“
”مگر کیا ابو جان…..!“نشرہ نے مضطرب ہو کر پوچھا۔
”نشرہ کے ابو ہماری بیٹی ایک روز چاند پر جائے گی اور بڑے بڑے سائنسدانوں سے ان شاء اللہ ملے گی۔“نشرہ کی امی نے چائے رکھتے ہوئے کہا۔
”ان شاء اللہ آمین میں بھی چاہتا ہوں کہ میری بیٹی کی ہر تمنا پوری ہو۔“ ابونے خوش ہوتے ہوئے کہااوردفتر کے کاموں سے تھکے ہونے کے باوجود اسے کبھی جھڑکتے نہیں بلکہ اسے کھلے آسمان کے نیچے لے کر بیٹھ جاتے اور سیاروں کی گردش کے بارے میں بتاتے اور اس کے تمام سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے کہتے۔
”بتاتا ہوں بھئی سب بتاتا ہوں،زرا صبر کرو۔“اور چائے کی چسکیاں لیتے پھربتانا شروع کیا۔”سورج کی تیز روشنی کی وجہ سے چاند اور ستارے ہملوگوں کو دیکھائی نہیں دیتے ہیں،چاندسورج کی روشنی کے انعکاس سے چمکتا ہے اور اب تمہارا آخری سوال اس کے بعد تم سونے جاؤگی کیوں کہ صبح جلدی اٹھنا ہے اسکول جانے کے لیے۔
”جی ابو!“نشرہ نے نفی میں سر ہلا کر کہا۔
جہاں تک full moonاور half moon کا سوال ہے تو چاند ہمیشہ پورا ہی رہتا ہے چاند half and fullاس لیے معلوم ہوتا ہے کیوں کہ ہم اس وقت چاند کے روشن کا صرف ایک حصہ ہی دیکھ پاتے ہیں،اب تمہارے تمام سوالات کے جوابات مل گئے۔
”ابو جان!“کچھ اور بتائیں۔
”اب کیا بتائیں بیٹا۔“
”ابو جان!وہ تمام سوالات میں نے کیئے، آپ کچھ الگ بتائیں۔“نشرہ شرارت سے اپنی دونوں بانہیں ابو کے گلے میں ڈالتے ہوئے بولی۔
”ہماری بیٹی بہت ہوشیار ہو گئی ہے۔“ابو اس کی بانہیں تھام کر جھلاتے ہوئے بولے۔
”جانتی ہو نشرہ چاند پر فضا ہوا کا دباؤ بالکل نہیں ہے، اس لیے چاند پر آکسیجن لے کر جاتے ہیں،چاند پر دن کے وقت بھی آسمان تم کو سیاہ دیکھائی دے گا،یہی نہیں سورج کے ساتھ ستارے بھی دیکھائی دیں گے، اگر تم چاند پر پہنچ جاؤ تو تمہیں کئی تعجب خیز باتیں معلوم ہوں گی۔“
”تعجب خیز باتیں…..وہ کیا ابو جان؟“
”مثلا….. ہمارا وزن نوے پونڈ ہے تو چاند پر ہم صرف پندرہ پونڈ کے رہ جائیں گے۔“نشرح غور سے ابو کی باتیں سن رہی تھی۔ ابو اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہتے۔
”نشرہ بیٹی! تم جو بھی خواب دیکھو اسے پائے تکمیل تک لے جاؤ، اگر انسان کا جذبہ سچا ہوگا تو ایک دن اس کو اس کی منزل ضرور ملتی ہے، تم جب بھی چاند‘ ستاروں کی طرف دیکھو تو اپنے پیروں کی طرف دھیان نہیں دینا بلکہ اسے چھونے کی کوشش کرنا۔“نشرہ ابو کی باتیں سن کر دور خلاؤں میں کھو گئی اور جب وہ اسکول جاتی اپنے دوستوں سے کہتی۔
”نیہا‘کوثر‘امان میں بڑی ہوکر scientistبنوں گی، اور چاند پر جانے کا راستہ تلاش کروں گی۔“نشرہ کی باتیں سن کر اس کی کلاس کے سبھی بچے ہنسنے لگتے۔ وہ خاموش نظروں سے اپنے دوستوں کو دیکھنے لگتی۔جب وہ اسکول جاتی اس کے دوست اسے دیکھتے ہی دور سے چلاتے ہوئے کہتے۔
”وہ دیکھو، آگئی بڑے بڑے خواب دیکھنے والی۔“
اس طرح وقت اپنی رفتار سے گزرتا گیا، نشرح درجہ آٹھ میں پہنچ گئی۔فلکیاتی علوم کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنے کے لیے بے چین رہتی۔ وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ کھیلنے کی بجائے اسکول کے کمپیوٹر لیب میں ناسا اور فلکیاتی علوم کے بارے میں اپنی کلاس ٹیچر سے جانکاری حاصل کرتی کیوں کہ اس کا خواب ماہر فلکیات بننا تھا۔
ایک دن اسے اپنے خوابوں کی منزل مل گئی۔جب اسمبلی حال میں اسکول کے پرنسپل نے سبھی طلبا و طالبات سے مخاطب ہو کر کہا۔
”پیارے بچو!آشٹرنومی اولمپیاڈ مقابلے قومی سطح پر منعقد ہونے جا رہا ہے، اس اولمپیاڈمیں ملک بھر کے ہزاروں طالبات شریک ہو ر ہے ہیں،اول اور دوم رینک حاصل کرنے والے طلبا و طالبات کو ناسا لے جایا جائے گا اور بڑے بڑے سائنسدانوں سے ملاقات بھی کرایا جائے گا،اس ادارہ کی طر ف سے صدر امیریکاسے ملاقات اور ان کے ساتھ طعام کا موقع بھی دیا جائے گا۔پیارے بچو!یہ ادارہ صرف امریکا روانگی نہیں بلکہ واپسی کے انتظامات بھی کرے گا اور فلکیات کی تعلیم میں تعاون بھی کرے گا، لہذا اس اولمپیاڈ میں آپ طلباو طالبات کو دلچسپی ہے تو آپ لوگ اپنا نام اپنی کلاس ٹیچر کے پاس درج کرالیں۔“
اس اولمپیاڈ کے بارے میں سن کر نشرہ کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھیں کہ اس اولمپیاڈ کو جیت کر وہ اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدل سکتی ہے۔یہ سوچ کر اس نے سب سے پہلے اپنا نام درج کرایا۔ رینک حاصل کرنے کے لیے وہ دن رات محنت کرنے لگی۔جب خدا کی مخلوق آرام کر رہی ہوتی وہ پڑھائی کرتی رہتی کہ اپنے خوابوں کو پائے تکمیل تک پہنچانے کے لیے اسے یہ اولمپیاڈ کسی بھی طرح جیتنا ہے۔جب اسٹرنومی اولمپیاڈ مقابلے کا نتیجہ نکلا تو اس نے دوسرا رینک حاصل کیا۔ وہ سرشار ہو گئی اس نے اپنی محنت ولگن سے خواب کو حقیقت میں بدل دیا۔ اس کی کامیابی پر اسکول کے پرنسپل‘ اساتذہ اسے پھولوں کا ہار پہنا کر اور گلدستہ دے کر اس کی حوصلہ افزائی کی۔ اس کے بہتر مستقبل کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔نشرح پھولوں کے ہار سے لدی ہوئی تھی۔ اس کے سبھی دوست حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔
نشرہ کی کامیابی پر اس کے ابو‘ امی کی آنکھوں میں مسرت کے آنسو جھلملانے لگے، نشرہ اپنے والدین کے آنسو پونچھتے ہوئے بولی۔
”ابو،امی!آج میری تمنا پوری ہوئی،میری اس کامیابی میں میرے ابو جان،میری کلاس ٹیچر کا سب سے اہم رول رہا ہے جسے میں کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔“اور اسمبلی حال تالیوں کی آواز سے گونج اٹھا۔
پیارے بچو!آپ کے دل میں کسی چیز کو حاصل کرنے کے لیے جذبہ سچا ہوگا تو ان شاء اللہ ایک روز منزل آپ کے قدم ضرور چومیں گی۔
ؤؤؤؤؤ