سائنسی دنیا

ماحولیاتی مسائل، عوام اور سرکار

غلام علی اخضر

موجودہ وقت میں ماحولیاتی مسائل کسی وبا سے کم نہیں ہیں۔ پوری دنیا اس سے نبرد آزمائی میں ناکام ہے۔ یہ ایک طرح سے اب لاینحل مسئلہ بنتا جارہا ہے۔ روز بروز اس سے بے شمار بیماریاں جنم لے رہی ہیں جن سے لاکھوں جانیں ضائع ہورہی ہیں۔ہر آن موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ناگہانی ماحولیاتی مسائل کا سامنا ہے۔ دنیا بھر کی حکومتیں موسمیاتی بحران سے نمٹنے میں ناکام ہیں۔ فضا اور سمندر مضر رساں اشیا کی وجہ سے آلودہ ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے ایسی کار بن گیس بڑھ رہی ہے جو ماحولیاتی نظام کے لیے کافی خطرناک ہے۔ لینڈ مافیاؤں نے تو اس خطرے کو اور بھی بڑھانے میں مسموم کردار ادا کیا ہے جو ہنوز جاری ہے۔ جنگلات کی کٹائی آب و ہوا میں عدم توازن کے باعث بن رہے ہیں اور جنگلوں پر قبضہ کرنے کے لیے اس میں آگ لگادی جاتی ہے۔ ہمارے سامنے وقتاً فوقتاً یہ بات آتی ہے کہ فلاں جگہ جنگل میں آگ لگ گئی۔ اس کی وجہ جاننے کے لیے جانچ کمیٹی بھی بنائی جاتی ہے لیکن دھیرے دھیرے سب ٹھنڈے بستے میں چلاجاتا ہے کیوں کہ یہ پوری ایک سازش کے تحت انجام پاتا ہے جس میں جہاں مافیاؤں کی کارستانی شامل ہوتی ہے وہیں رشوت خور سرکاری افسران بھی برابرکے شریک دار ہوتے ہیں۔اب لینڈ مافیاؤں کے ہی معاملے پر نظر ڈالیں کہ ایم سی ڈی کے سامنے پوری کی پوری بستیاں بس جاتی ہیں، بڑی بڑی بلڈنگیں اور فلیٹ کھڑے ہوجاتے ہیں۔ کیا ایم سی ڈی والوں کی نظر نہیں پڑتی ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ ان کے علم کے بغیر اتنی بڑی بڑی بلڈنگیں کھڑی ہوجائیں۔

اچھے موسم کے لیے شجر کاری بھی ضروری ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق ہرسال اٹھارہ ملین ایکڑ رقبے پر پھیلے جنگلات کو کاٹ دیا جاتا ہے۔ آج ٹیشو پیپر کا استعمال عام ہوچکا ہے۔ رپورٹ کے مطابق صرف ٹیشو بنانے کے لیے سالہ قریب ۰۱ ملین پیڑکٹتے ہیں۔ اگر ہم اس کا دن کے اعتبار سے تخمینہ کریں تو قریب ہر روز۷۲ ہزار درخت صرف ٹیشو پیپر بنانے کے لیے کٹتے ہیں۔ بزنس کی دنیا نے انسان کو ٹیشو کی ایسی لت لگادی ہے کہ جہاں انسان ایک پاکٹ رومال سے بھی بہت سی بنیادی ضروریات کو پورا کرسکتا ہے وہاں بھی اس کا بے جا استعمال کرکے ماحولیات کو متاثر کررہا ہے۔ اس بری لت کو دور کرنے پر کار بند ہونا تو دور کی بات اس پر غور وفکر بھی نہیں کرتے۔ اگر ہم اس حوالے سے بیدار ہوجائیں تو خود کمپنیاں جو زر کی ہوس میں روز ہزاروں ایسی اشیا بنا رہی ہیں جن سے ماحول آلودہ ہورہا ہے اس پر لگام لگ جائے۔

اسی طرح نت نئے کاشتکاری کے طریقہئ کار نے بھی یعنی زیادہ سے زیادہ زمین سے زراعت حاصل کرنے کی چاہ میں طرح طرح کے کھاد اور کیمیکل سے زمین کو جہاں زہریلا بنا ر ہے ہیں وہیں اس سے مس ہو کر چلتی ہوا بھی زہر بن رہی ہے۔ کیمیکل سے پیدا ہونے والی فصلیں ہمارے جسم میں کئی طرح کی بیماریاں پیدا کر رہی ہیں۔ افسوس ہے کہ اس طرف ہمارا کوئی توجہ نہیں ہے۔ ہم ڈاکٹروں کو روپے دینے کے عادی ہوچکے ہیں۔مورڈن لائف نے ہوٹل کو کثرت سے وجود بخشاہے جن سے نکلنے والے فضلات فضائی آلودگی کو بڑھانے کے اسباب بن رہے ہیں جن پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ گھروں میں کھانے کا احتمام کریں غیرضروری ہوٹل نہ جائیں۔

آلودگی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ اس میں جہاں سرکاروں کی لاپرواہیاں شامل ہیں وہیں خود عوام بھی ذمے دار ہے۔ دن بھر میں ہر فرد نہ جانے اپنے کتنے اعمال سے ماحول کو خراب کررہا ہے۔ یومیہ نہ جانے کتنے اسموگ اور اس طرح کے زہریلے دھواں سے عوام خود ماحولیات کو زہرآلود کررہے ہیں۔ ایسی گاڑیاں جن کی سروسنگ ضروری ہے یا ایسی گاڑیاں جو اب قانونی طور پر چلنے کے لائق نہیں ہے پھر بھی ہم انھیں چلاتے ہیں۔ ضرورت سے زیادہ ہم گاڑیوں کا استعمال کرتے ہیں۔ چند منٹ کے راستے جنھیں ہم چل کر بھی طے کرسکتے ہیں وہاں بھی گاڑیوں کا استعمال کرتے ہیں۔ خود کیے کا کیا علاج ہے!

۵/جون کو اس حوالے سے دنیابھر میں بیداری مہم بھی چلائی جاتی ہے۔ عالمی یوم ماحولیات کے موقع پر ہمارے وزیر اعظم نے اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن آن کلائمیٹ چینج کوپ۶۲کانفرنس میں ”مشن لائف“پر کافی زور دیا تھا۔ لیکن عالمی پیمانے پر تو بات چھوڑیے ہندوستان کی راجدھانی کی کلائمیٹ پر’مشن لائف‘کا کوئی اثر نہیں دکھتا ہے۔ اس سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ ہم ماحولیات کو لے کر کتنے غیرسنجیدہ ہیں اور ہمارے قول و فعل میں کتنا تضاد ہے۔

اس سال کوپ۹۲ کانفرنس کی آذربائیجان میزبانی کررہا ہے، لیکن موسمیاتی تبدیلوں پر اقدامات کے کیا اثر مرتب ہورہے ہیں یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ ایک طرف ہم صاف ماحولیات پر بڑی بڑی کانفرنسیں کرکے ملک کے اربوں روپے پانی کی طرح بہا دیتے ہیں اوروہیں دوسری طرف جوہری ایجادات کو بڑھارہے ہیں اور جنگ سے اس دنیا کے موسمیاتی ماحول کو تباہ و برباد بھی کررہے ہیں۔

ماحولیات کو لے کر عوام میں بیداری اور فہم کی بھی کمی ہے، آپ کو ایک واقعہ سے اس کا اندازہ ہو گا۔ ہم دہلی سے میرٹھ یونیورسٹی جارہے تھے۔ جب ہم اَکشردھام سے آگے بڑھے تو کچھ فضائی آلودگی ہمیں زیادہ معلوم ہوئی تو اس پر بات چھڑگئی۔ ڈرائیور کا کہنا تھا کہ یہ بس بے کار کی باتیں ہیں۔ گاؤں میں بھی تو اس موسم میں ایسا ہوتا ہے۔ تب میں نے سمجھا ایسا نہیں ہے وہ جو گاؤں میں شبنم، یا کہرے آپ دیکھتے ہیں وہ نیچرل ہوتے ہیں لیکن یہاں کا معاملہ یہ ہے کہ یہاں کی فضا اتنی خراب ہے کہ اس کہرے میں ملنے کے بعد وہ زہر بن جاتی ہے جو صحت کے لیے کافی مضر ہے اور خاص کر ایسے افراد جنھیں سانس کی بیماری ہے۔

اس وقت ماحولیاتی تحفظ کے قوانین پر سختی سے عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ ماحولیاتی قوانین کے خلاف ورزی کرنے والوں پر سخت کارروائی کی جائے۔ اس کا تدارک بے حد ضروری ہے، تاکہ موسمیاتی تبدیلی، فضائی آلودگی، آبی آلودگی، زہریلے کیمیلز اور ان جیسے مضراسباب جو ہماری زندگی کو مثاثر کررہے ہیں اس پر قابوپایا جاسکے۔ ورنہ آنے والی نسلوں کو ہم ایسی دنیا دیں گے جہاں وہ زندگی تو ضرور بسر کریں گی لیکن وہ زندگی کسی جہنمی زندگی سے کم نہ ہوگی۔جہاں بس جینا ہوگا لیکن سکون ناپید ہوگا۔جسمانی خدو خال پر اس کے کافی برے اثرات مرتب ہوں گے اور اب بھی ہورہے ہیں۔ہم اب بھی بیدار نہیں ہوں گے تم کب ہوں گے؟۔

admin@alnoortimes.in

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

سائنسی دنیا

مذہبی تناظر میں جدید انفارمشن  ٹکنا لوجی کا استعمال

ابن العائشہ صدیقی علی گڑھ مذہب اسلام اپنی آفاقی تعلیمات کے ذریعے ہر زمانے کے تقاضوں کو پورا کرنے کی
سائنسی دنیا

قلیل المدتی سردی کی لہر: ماحولیاتی نظام کے لیے ایک تشویشناک صورتحال

منصور الحق” سعدی” علیگڑھ زمین کا ماحولیاتی نظام ایک نازک توازن پر قائم ہے، جو جانداروں اور غیر جاندار عناصر