راہِ ہدایت

وقفی قبرستان میں مزار کی تعمیر: شریعت کی روشنی میں

از: مفتی منظر محسن پورنوی

بسم الله الرحمن الرحيم … حامدا و مصليا ومسلما
اللهم هداية الحق والصواب

حضرت مولانا یونس عالم صاحب رحمۃ اللہ علیہ مال بستی، چھتر گاچھ، بھوٹا تھانہ، ضلع کشن گنج، بہار کے رہائشی تھے۔ وہ ایک بلند پایہ عالم دین تھے، پابند صوم و صلاۃ اور اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ کے عاشق و محب تھے اور حضور تاج الشریعہ کے ساتھیوں میں شامل تھے۔ ان کی علمی، دینی اور فکری خدمات قابلِ قدر ہیں۔ لیکن حالیہ سوال یہ ہے کہ ان کی وفات کے بعد ان کی قبر پر ایک مزار تعمیر کیا گیا، جس پر چادر پوشی کی جاتی ہے اور دیگر مراسم بھی بجا لائے جاتے ہیں، جبکہ یہ مزار عوامی قبرستان میں واقع ہے اور اس میں دیگر قبور بھی موجود ہیں۔ اس کے علاوہ، مولانا مرحوم نے زندگی میں اپنے گاؤں، مسجد اور قریبی برادری کے ساتھ تعلقات نہیں رکھے، اور کبھی گاؤں کی مسجد میں نماز با جماعت بھی ادا نہیں کی جبکہ اس میں پنج وقتہ نماز با جماعت ہوتی ہے۔
المستفتی: مسلمانان اہل سنت، مال بستی ، بھوٹا تھانہ، چھتر گاچھ، کشن گنج، بہار

1.فتویٰ: عوامی قبرستان میں مزار کی تعمیر کا حکم

قرآن و سنت اور فقہ اسلامی کی روشنی میں اس صورتِ حال کا جائزہ لینا انتہائی ضروری ہے۔ شریعت میں وقفی قبرستان میں اضافی تعمیرات کرنے اور قبور کی بے حرمتی کے حوالے سے سخت احکامات موجود ہیں۔

وقفی قبرستان میں تعمیرات کا حکم

سلامی شریعت کے مطابق وقفی قبرستان میں عمارت تعمیر کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ اس سے وقف کی اصل ہیئت تبدیل ہو جاتی ہے، جو کہ ناجائز ہے۔ جیسا کہ “فتاوی عالمگیریہ” میں ہے:

“ولا يجوز تغيير الوقف عن هيئته” (ج: 2، ص: 490)

رجمہ: “وقف کی ہیئت میں تبدیلی جائز نہیں ہے۔”

فتاویٰ رضویہ میں امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:

“مسلمانوں کا عام قبرستان وقف ہوتا ہے اور اس میں سوائے دفن کے اور تصرف کی اجازت نہیں”۔ (ج:6، ص: 493)

“اور اگر بعد وقف بنائی ہے تو یہ عمارت خود ہی ناجائز ہے کہ مقابر موقوفہ میں عمارت بنانے کی اجازت نہیں”۔ (ج:6، ص: 490)

“فتاوی رضویہ” ہی میں ہے:

“وقف کی تبدیل جائز نہیں، جو چیز جس مقصد کے لیے وقف ہے اسے بدل کر دوسرے مقصد کے لیے کر دینا روا نہیں، جس طرح مسجد یا مدرسہ کو قبرستان نہیں کر سکتے یونہی قبرستان کو مسجد یا مدرسہ یا کتب خانہ کر دینا حلال نہیں۔” (فتاوی رضویہ مترجم، ج: 9، ص: 497، ناشر رضا فاؤنڈیشن لاہور)

اسی طرح اسی میں ہے:

“مسلمانوں کو تغییر وقف کا کوئی اختیار نہیں، تصرف آدمی اپنی ملک میں کر سکتا ہے۔ وقف مالک حقیقی جل و علا کی ملک خاص ہے، اس کے بے اذن دوسرے کو اس میں کسی تصرف کا اختیار نہیں۔” (فتاوی رضويه مترجم، ج: 16، ص: 223 ، ناشر رضا فاؤنڈیشن لاہور)

لہذا، جب وقف کسی خاص مقصد کے لئے ہے، تو اس کی خلاف ورزی کر کے کسی اور مقصد کے لئے استعمال کرنا جائز نہیں۔

  1. قبروں کی بے حرمتی اور ارواح مسلمین کی اذیت

مذکورہ مزار کے نیچے چار سے پانچ قبریں دب گئی ہیں جیسا کہ بتایا گیا ہے، اور ان قبروں پر مزار کی عمارت تعمیر کی گئی ہے، جو کہ قبور مسلمین کی بے حرمتی اور ایذائے ارواح مسلمین کا باعث ہے۔

  1. قبور مسلمین پر چلنا یا ان پر بیٹھنا

حدیث شریف میں بھی مسلمانوں کی قبروں پر چلنے یا بیٹھنے کی بھی ممانعت آئی ہے۔ امام مسلم نے اپنی “صحیح مسلم” میں روایت کیا:

“لأن يجلس أحدكم على جمرة، فتحرق ثيابه، فتخلص إلى جلده، خير له من أن يجلس على قبر”. (کتاب: الجنائز، باب النهي عن الجلوس على القبر)

ترجمہ: “رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کسی کا انگارے پر بیٹھ جانا، یہاں تک کہ اس کے کپڑے جل جائیں اور اس کا جسم بھی متاثر ہو جائے، اس سے بہتر ہے کہ وہ قبر پر بیٹھے۔”

نیز، سنن ابن ماجہ میں ہے:

“لأن أمشي على جمرة، أو سيف، أو أخصف نعلي برجلي أحب إلي من أن أمشي على قبر مسلم”. (کتاب الجنائز، باب ما جاء في النهي عن المشي على القُبُورِ والجُلُوسِ عَلَيْهَا)

ترجمہ: “اگر میں دہکتے انگارے پر چلوں، یا تلوار پر چلوں، یا اپنے جوتے کی مرمت اپنے پاؤں سے کروں، تو یہ میرے لیے اس سے بہتر ہے کہ میں کسی مسلمان کی قبر پر چلوں۔”

  1. قبرستان میں راستہ نکالنے کی ممانعت

فقہائے کرام نے وقفی قبرستان میں راستے نکالنے کو بھی مکروہ قرار دیا ہے۔ “بحر الرائق” میں ہے:

“وفي فتح القدير ويكره الجلوس على القبر ووطؤه حينئذ فما تصنعه الناس ممن دفنت أقاربه ثم دفنت حواليهم خلق من وطوء تلك القبور إلى أن يصل إلى قبر قريبه مكروه”. (ج: ۲، کتاب الجنائز، ص: ٣٤١)

“فتح القدیر میں ہے کہ قبر پر بیٹھنا اور اس پر چلنا مکروہ ہے۔ جو لوگ ایسا کرتے ہیں کہ ان کے عزیز دفن کیے گئے، پھر ان کے ارد گرد دوسرے لوگ دفن ہو گئے، تو وہ ان قبروں پر چلتے ہیں تاکہ اپنے عزیز کی قبر تک پہنچ سکیں، یہ عمل مکروہ ہے۔” (جلد: ۲، کتاب الجنائز، ص: ٣٤١)

اسی طرح “فتاوی عالمگیری” میں ہے:

“رجل وجد طريقا في المقبرة يتحرى فإن وقع في قلبه أن هذا طريق أحدثوه على القبور لا يمشي فيه، وإن لم يقع في قلبه ذلك يمشي كذا في محيط السرخسي”. (ج:۵، ص: ۳۵۱)

ایک شخص نے قبرستان میں ایک راستہ دیکھا اور اس پر غور کرنے لگا۔ اگر اس کے دل میں یہ خیال آیا کہ یہ راستہ قبروں کے اوپر نیا بنایا گیا ہے تو وہ اس پر نہیں چلے گا، اور اگر اس کے دل میں ایسا خیال نہ آیا تو وہ اس راستے پر چل سکتا ہے۔ یہی بات محیط السرخسی میں آئی ہے۔

  1. عرس کی تقریبات سے قبروں کی پامالی

وقفی قبرستان میں عرس منانا، اجتماع اکٹھا کرنا اور بھیڑ بھاڑ کرنا، قبروں کی پامالی اور بے حرمتی کا سبب بن سکتا ہے۔ اسی بناء پر فقہاء نے قدیم قبرستان میں نیا راستہ نکالنے کو بھی نا جائز قرار دیا ہے۔

وارثین اور عوام الناس کے لیے ہدایات:
مولانا یونس عالم رحمۃ اللہ علیہ کے وارثین اور ان سے محبت کرنے والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ شریعت کی روشنی میں عمل کریں۔ ان کے مزار کو اس وقفی قبرستان میں ڈھا دیں اور ان کے عرس کو کسی دوسرے مقام پر منعقد کریں تاکہ قبور مسلمین کی حرمت محفوظ رہے اور وقف میں کوئی غیر شرعی تصرف نہ ہو۔

admin@alnoortimes.in

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

راہِ ہدایت

ایمان: انسانیت کی اصل اور بندگی کی بنیاد

مخدوم شاہ طیب بنارسی ایمان تمام نیکیوں کی اصل اورجملہ عبادتوں کی جڑ ہے۔کوئی عبادت وطاعت درستیِ ایمان کے بغیر
راہِ ہدایت

مسلم لڑکیوں کا غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ فرار شرم ناک حرکت

بدرالدجیٰ الرضوی المصباحی آج کل مسلم لڑکیوں کی غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ شادی کا ویڈیو بڑی تیزی کے ساتھ