بھارت پر 50 فیصد ٹیکس، بازار نے نظرانداز کیا

ڈونالڈ ٹرمپ نے بھارت پر درآمدی ٹیکس 25 سے بڑھا کر 50 فیصد کیا، مگر مارکیٹ اور روپے پر اثر نہ پڑا۔
امریکہ کے موجودہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ایک تازہ تجارتی فیصلے میں بھارت سے آنے والی متعدد مصنوعات پر درآمدی ٹیکس کو 25 فیصد سے بڑھا کر 50 فیصد کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ امریکی مصنوعات کو مقامی مارکیٹ میں تحفظ دینے اور عالمی تجارتی توازن میں امریکہ کی بالادستی قائم رکھنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ ٹرمپ کے اس اعلان کے بعد دنیا بھر کی نظریں بھارتی مالیاتی مارکیٹ پر تھیں کہ اس کا کتنا اثر ہوتا ہے، مگر ابتدائی تجزیے کے مطابق نہ تو شیئر بازار میں بڑی گراوٹ دیکھی گئی اور نہ ہی بھارتی کرنسی میں کوئی غیر معمولی کمزوری۔جمعرات کو بمبئی اسٹاک ایکسچینج کا سینسیکس 250 پوائنٹس کی کمی کے ساتھ 80,262 پر کھلا، جو گزشتہ بند سطح 80,543.99 سے نیچے تھا، لیکن چند ہی منٹوں میں بازار نے تیزی سے سنبھالا لیا اور 80,421 تک پہنچ گیا۔ نیشنل اسٹاک ایکسچینج کا نفٹی انڈیکس بھی 24,464 پر کھلا، جو گزشتہ دن کے بند 24,574 سے قدرے کم تھا، مگر یہ بھی جلد ہی 24,542 پر آ گیا۔
بھارتی کرنسی روپیہ بھی ڈالر کے مقابلے میں مضبوطی کے ساتھ 87.69 پر کھلا، جو 3 پیسے کی بہتری کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ سرمایہ کار اس فیصلے سے خوفزدہ نہیں ہوئے۔ابتدائی کاروبار کے دوران 1433 کمپنیوں کے شیئرز میں گراوٹ دیکھی گئی، جب کہ 751 اسٹاکس بھی سرخ نشان پر کھلے۔ دوسری جانب، 150 شیئرز کی قیمت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ جن کمپنیوں نے مندی دیکھی ان میں کوٹک مہندرا بینک، ٹاٹا اسٹیل، اسٹیٹ بینک آف انڈیا، کوئل انڈیا اور جیو فنانشل شامل ہیں، جب کہ ہیرو موٹوکورپ، سپلا، بجاج فن سرور، ماروتی سوزوکی اور جے ایس ڈبلیو اسٹیل جیسے شیئرز نے مثبت رجحان دکھایا۔
تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اگرچہ امریکی اقدام بھارت کے لیے چیلنج ہے، لیکن مارکیٹ کی مستحکم کارکردگی سے واضح ہے کہ سرمایہ کار اس فیصلے کو وقتی سمجھ رہے ہیں، اور بھارتی معیشت کی بنیادیں مضبوط ہیں۔اب سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا اس ٹیرِف فیصلے کا اثر دونوں ملکوں کے سیاسی تعلقات پر بھی پڑے گا؟ خاص طور پر ایسے وقت میں جب نریندر مودی، ڈونالڈ ٹرمپ کو اپنا “قریبی دوست” قرار دیتے رہے ہیں۔ اگر اقتصادی دباؤ بڑھا تو بھارت کی خارجہ پالیسی کا جھکاؤ روس اور چین کی طرف بڑھ سکتا ہے، جو امریکہ کے لیے ایک نئی سفارتی پیچیدگی پیدا کر سکتا ہے۔اگر بھارت واقعی روس اور چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مستحکم کرتا ہے، تو نہ صرف امریکہ-بھارت کے باہمی تعلقات بلکہ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی روابط بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔ یہ صورتحال مستقبل کی عالمی سیاست اور معیشت پر کیا اثر ڈالے گی — یہ تو آنے والا وقت ہی بتا سکے گا۔