یوکرین اور روس کے درمیان باضابطہ مذاکرات کا آغاز، 1000 جنگی قیدیوں کا تبادلہ

یوکرین اور روس نے استنبول میں مذاکرات کے آغاز پر 1000 جنگی قیدیوں کے تبادلے پر اتفاق کیا، تاہم جنگ بندی اور دیگر معاملات پر شدید اختلافات باقی ہیں۔
یوکرین اور روس کے درمیان پہلی مرتبہ باضابطہ مذاکراتی عمل کا آغاز ترکی کے شہر استنبول میں جمعہ کو ہوا۔ یہ مذاکرات تین برسوں بعد شروع ہوئے ہیں، جس میں دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے ایک ہزار جنگی قیدیوں کو رہا کرنے پر اتفاق کیا۔ اس بات چیت کے دوران یوکرین اور روس کے وفود مارچ 2022 کے بعد پہلی بار آمنے سامنے آئے۔ترکی اور امریکہ سمیت دیگر عالمی طاقتوں نے اس مذاکراتی عمل کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا اور دونوں فریقین پر بات چیت کی حوصلہ افزائی کی۔ مذاکرات میں یوکرینی وفد میں شامل بیشتر افراد نے فوجی وردیاں پہن رکھی تھیں تاکہ دنیا کو یہ یاد دلایا جا سکے کہ ان کا ملک روسی حملے کا سامنا کر رہا ہے۔
اس موقع پر ترکی کے وزیر خارجہ ہاکان فیدان نے دونوں فریقین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ مذاکرات امن کی طرف بھی جا سکتے ہیں، مگر اگر یہ ناکام ہو گئے تو اس سے مزید ہلاکتیں اور تباہی ہو سکتی ہے۔مذاکرات کا دورانیہ دو گھنٹے سے کم رہا اور ابتدائی طور پر شدید اختلافات سامنے آئے۔ یوکرین کے ایک اہلکار کے مطابق، روس نے مذاکرات میں ’نئے اور ناقابل قبول مطالبات‘ پیش کیے، جن میں جنگ بندی کے بدلے یوکرین کے کچھ علاقوں سے اپنی فوجیں واپس بلانے کا مطالبہ شامل تھا۔
تاہم، دونوں فریقین کے درمیان ایک اہم پیش رفت یہ ہوئی کہ انھوں نے ایک ہزار جنگی قیدیوں کے تبادلے پر اتفاق کیا۔ یوکرین کے نائب وزیر خارجہ سرہی کیسلیٹس نے کہا کہ یہ خبر یوکرینی خاندانوں کے لیے ایک بہت خوش آئند موقع ہے۔یوکرین کے وزیر دفاع رستم عمروف نے اس بات کا اشارہ دیا کہ قیدیوں کا تبادلہ جلد ہو گا، لیکن اس کی تاریخ ابھی تک منظر عام پر نہیں لائی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگلا قدم زیلنسکی اور پوتن کے درمیان ملاقات کا ہونا چاہیے، جس پر روسی وفد کے سربراہ ولادیمیر میڈنسکی نے کہا کہ اس بات کو نوٹ کیا گیا ہے۔
روس کی طرف سے مذاکرات کو وقت خریدنے کے حربے کے طور پر استعمال کرنے کا خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے، تاکہ بین الاقوامی دباؤ کم کیا جا سکے اور یورپی پابندیوں کے 18ویں دور کو روکنے کی کوشش کی جا سکے۔اسی دوران، امریکی صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ ان کے اور روسی صدر پوتن کے درمیان بات چیت ہی حقیقتاً اہم ہوگی۔ انھوں نے کہا کہ جب تک پوتن اور وہ خود ایک دوسرے سے نہیں ملیں گے، تب تک اس تنازعے میں کوئی بڑی پیش رفت نہیں ہو گی۔کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے اس بات کی تصدیق کی کہ اعلیٰ سطحی مذاکرات ضروری ہیں، تاہم سربراہی اجلاس کی تیاری میں وقت درکار ہو گا