مظلوم فلسطین: عالمی طاقتوں کی دوغلی پالیسیوں کا شکار

نیٹو، برطانیہ اور اسرائیل: مظلوموں کے خون سے لکھی گئی تاریخ
منصورالحق سعدی،علی گڑھ
جنوبی غزہ میں کئی سو میٹر تک پھیلی ایک سرخ کپڑے سے ڈھکی ہوئی میز نے ملبے کے ڈھیروں کے درمیان سے خود کا راستہ بنایا،غزہ کے اکثر متاثرین مقدّس مہینے رمضان میں پہلا روزہ افطار کرنے کو جمع تھے ۔جیسے ہی رفح کے ایک محلے پر سورج غروب ہوا، جہاں غزہ پر اسرائیل کی جنگ نے بمشکل چند عمارتیں کھڑی چھوڑی ہیں، ہر عمر کے سینکڑوں فلسطینیوں نے دن کے روزے کے اختتام پر روزہ افطار کیا۔

“لوگ شدید غمزدہ ہیں، اور ہمارے آس پاس کی ہر چیز دل دہلا دینے والی محسوس ہوتی ہے،” ملک فدا نے کہا، جنہوں نے اجتماعی افطار کا اہتمام کیا تھا۔”لہذا، ہم نے اس گلی میں خوشیاں واپس لانے کی کوشش کی ہے ، جیسا کہ جنگ سے پہلے یہاں کا ماحول تھا۔فلسطینی جھنڈے اور ٹوٹے ہوئے کنکریٹ کے درمیان روشنیاں تھیں۔اقوام متحدہ کے مطابق، اسرائیلی بمباری نے تقریباً پوری آبادی کو بے گھر کر دیا ہے اور بڑے پیمانے پر بھوک کو جنم دیا ہے۔
گزشتہ ۱۹جنوری کو نافذ ہونے والی جنگ بندی نے تباہ شدہ فلسطینی علاقے میں زیادہ سے زیادہ امداد کے پہنچنے کا راستہ ہموار کیا ہے، لیکن بے گھر ہو چکے لاکھوں لوگ خیموں میں رہنے کو مجبور ہیں ، بہت سے افراد اپنے سابقہ گھروں کے ملبے میں ڈیرا ڈالے ہوئے ہیں۔
شمالی شہر بیت لاہیا میں، درجنوں لوگ شام کی ڈھلتی ہوئی روشنی میں ایک ساتھ مل کر آدھی منہدم عمارتوں کی باقیات کے درمیان افطار کر رہے تھے۔
مقامی شہری محمد ابو الجدیان نے ایک اخبار کے نامہ نگار سے کہا: “ہم یہاں تباہی اور ملبے کے درمیان ہیں اور ہم درد اور اپنے زخموں کے باوجود ثابت قدم ہیں،” محمد ابو الجدیان نے کہا۔انہوں نے مزید کہا کہ یہاں ہم اپنی زمین پر افطار کھا رہے ہیں اور ہم اس جگہ کو نہیں چھوڑیں گے۔غزہ کی وزارت صحت کے حوالے سے خبر ہے کے غزہ میں اسرائیلی ظلم کا شکار ہو کر اب تک لگ بھگ۴۸،۵۴۳افراد ہلاک ہوئے ہیں جب کہ۱،۱۱،۹۸۱ افراد کے زخمی ہونے کی تصدیق ہوئی ہے۔ غزہ کے سرکاری میڈیا آفس نے مرنے والوں کی تعداد ۶۱،۷۰۰ سے زیادہ بتائی ہے،اور کہا ہے کہ ملبے تلے لاپتہ ہونے والے ہزاروں فلسطینیوں کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ مر چکے ہیں۔
بیلفور اعلان: برطانیہ کی سامراجی چال اور فلسطینیوں کی زمین پر قبضے کی بنیاد
سال ۱۹۱۷میں جاری ہونے والا “بیلفور اعلان” محض ایک سفارتی بیان نہیں تھا، بلکہ یہ ایک سازشی منصوبہ تھا جس کے تحت فلسطینیوں کی سرزمین چھین کر اسے صیہونی تحریک کے حوالے کر دیا گیا۔ اس اعلان کا بنیادی مقصد برطانوی سامراج کے سیاسی اور معاشی مقاصد کو پورا کرنا تھا، نہ کہ کسی مظلوم قوم کے حقوق کا تحفظ۔
برطانیہ، جو اس وقت دنیا کی سب سے بڑی سامراجی طاقت تھا، نے اپنی استعماری پالیسیوں کو آگے بڑھانے کے لیے مشرق وسطیٰ کو ایک تجربہ گاہ بنایا۔ ۱۹۱۷میں پہلی جنگ عظیم کے دوران برطانوی وزیر خارجہ آرتھر جیمز بیلفور نے یہ اعلان کیا کہ برطانوی حکومت فلسطین کی سرزمین پر یہودیوں کے لیے ایک قومی وطن کے قیام کی حمایت کرے گی۔ یہ فیصلہ فلسطینی عوام کی مرضی اور حق خودارادیت کے سراسر خلاف تھا، کیونکہ اس وقت فلسطین میں یہودیوں کی آبادی ۱۰ فیصد سے بھی کم تھی جبکہ باقی ۹۰ فیصد مقامی عرب آبادی پر مشتمل تھی۔
یہ اعلان دراصل ایک غیر قانونی، غیر اخلاقی اور غیر منصفانہ اقدام تھا جس نے فلسطینی عوام کے مصائب کی بنیاد رکھی۔ برطانیہ نے فلسطینیوں کی سرزمین کو اپنی جاگیر سمجھ کر صیہونی تحریک کو پیش کر دیا اور اس اقدام کے نتیجے میں لاکھوں فلسطینیوں کو بے گھر ہونا پڑا۔ بیلفور اعلان کا سب سے زیادہ خطرناک پہلو یہ تھا کہ اس میں فلسطینی عوام کی موجودگی کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا، جیسے وہ وہاں کبھی موجود ہی نہیں تھے۔
برطانیہ کی اس پالیسی نے نہ صرف مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام کو جنم دیا بلکہ یہ مسئلہ آج بھی جاری ہے۔ ۱۹۴۸ میں جب اسرائیل کی ناجائز ریاست قائم ہوئی، تو اس کی جڑیں اسی بیلفور اعلان میں پیوست تھیں۔ برطانیہ نے نہ صرف اسرائیل کی تشکیل میں مدد دی بلکہ بعد میں بھی مغربی طاقتوں کے ساتھ مل کر اسرائیل کو فوجی اور سفارتی مدد فراہم کرتا رہا۔
آج بھی فلسطینی عوام بیلفور اعلان کے سائے میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ غزہ کی پٹی ہو یا مغربی کنارے، ہر جگہ برطانوی استعماری سازش کے اثرات نمایاں ہیں۔ اگر برطانیہ ۱۹۱۷میں فلسطینی عوام کے حق میں فیصلہ کرتا تو آج لاکھوں بے گناہ انسان قتل نہ ہوتے، ان کے گھر تباہ نہ ہوتے اور وہ اپنی سرزمین سے محروم نہ ہوتے۔
بیلفور اعلان نہ صرف فلسطینی عوام کے خلاف ایک تاریخی جرم تھا بلکہ یہ برطانوی سامراج کی استعماری پالیسیوں کی سب سے شرمناک مثال بھی ہے۔ آج جب برطانیہ انسانی حقوق کا چیمپئن بننے کا دعویٰ کرتا ہے، تو اسے پہلے اپنے ماضی پر نظر ڈالنی چاہیے اور فلسطینی عوام سے معافی مانگنی چاہیے جنہیں اس نے ایک صدی قبل اپنی سامراجی سازشوں کی بھینٹ چڑھا دیا۔
جبکہ برطانیہ نے نیٹو کے شریک کی حیثیت سے غزہ میں تباہی مچائی ہی ہے، تو دوسری طرف مارچ ۲۰۲۵ کے اوائل میں ونزر قلعے میں ایک عوامی افطار کا انعقاد کیا گیا فلسطینی بچوں کے خون سے رنگے ہاتھ دھوے جا سکیں اور اپنی بین الاقوامی ساکھ کو بہتر بنا سکیں۔
ونزر قلعہ برطانوی شاہی خاندان کا ایک تاریخی محل ہے جو قریب ایک ہزار سال قدیم ہے، اور آج بھی برطانوی بادشاہ کی سرکاری رہائش گاہوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہ قلعہ نہ صرف شاہی عظمت کی علامت ہے بلکہ برطانوی سامراج کی توسیع پسندی اور استعماری تاریخ کی ایک جیتی جاگتی مثال بھی ہے۔ صدیوں سے برطانیہ نے دنیا کے مختلف خطوں میں اپنی طاقت کا لوہا منوایا ہے، اور فلسطین ان مظلوم سرزمینوں میں سے ایک ہے جو برطانوی پالیسیوں کا شکار ہوا۔
برطانوی حکومت نے مشرق وسطیٰ میں جو کردار ادا کیا ہے، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ خاص طور پر نیٹو کے ساتھ مل کر فلسطین میں جاری جارحیت میں اس کا فعال کردار کسی بھی انسانی اور اخلاقی اصولوں کے خلاف ہے۔
نیٹو (NATO) ایک ایسا عسکری اتحاد ہے جس کا دعویٰ امن، استحکام اور عالمی تحفظ کو یقینی بنانا ہے، مگر اس کے عملی اقدامات اکثر اس کے دعووں کے برعکس نظر آتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں غزہ میں جاری بے رحمانہ بمباری اور اسرائیلی مظالم میں نیٹو کی خاموشی اور بالواسطہ حمایت ایک ایسا سانحہ ہے جسے تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔ نیٹو اور اس کے اتحادی نہ صرف اسرائیل کی پشت پناہی کر رہے ہیں بلکہ جدید ترین جنگی ہتھیاروں، خفیہ معلومات اور سفارتی مدد کے ذریعے اس قتلِ عام کو جاری رکھنے میں مدد فراہم کر رہے ہیں۔
نیٹو کے بنیادی اصولوں میں انسانی حقوق، جمہوریت اور عالمی امن کی پاسداری شامل ہے، مگر جب معاملہ فلسطینی عوام پر ہونے والے ظلم و ستم کا آتا ہے تو یہی تنظیم نہ صرف خاموش رہتی ہے بلکہ ظالم کے شانہ بشانہ کھڑی نظر آتی ہے۔ عراق، افغانستان، لیبیا، شام، اور یوگوسلاویہ میں نیٹو نے نام نہاد امن قائم کرنے کے نام پر لاکھوں بے گناہ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا، اور اب یہی پالیسی غزہ میں بھی دہرائی جا رہی ہے۔ نیٹو اور اس کے رکن ممالک، خاص طور پر امریکہ، برطانیہ، اور یورپی طاقتیں، اسرائیل کو ہر ممکن مدد فراہم کر رہے ہیں،جس کا نتیجہ یہ ہے کہ فلسطین کے معصوم بچے، خواتین اور بے گناہ شہری دن رات وحشیانہ بمباری کی زد میں ہیں۔
غزہ ایک ایسا خطہ ہے جو گزشتہ کئی دہائیوں سے اسرائیلی جارحیت کا شکار ہے، مگر حالیہ حملے اپنی شدت اور جارحیت میں سابقہ تمام مظالم کو پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔ نیٹو اور اس کے اتحادیوں کی فراہم کردہ جنگی ٹیکنالوجی کی مدد سے اسرائیلی افواج اسکولوں، ہسپتالوں، رہائشی عمارتوں، اور پناہ گزین کیمپوں کو نشانہ بنا رہی ہیں۔ ہزاروں بچے اور خواتین بے رحمی سے شہید کیے جا چکے ہیں، جب کہ زندہ بچ جانے والوں کو خوراک، پانی، ادویات اور بنیادی ضروریاتِ زندگی تک رسائی حاصل نہیں۔ یہ صورت حال نیٹو کے دوہرے معیار کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے، جو ایک طرف تو یوکرین جیسے ممالک میں انسانی حقوق کی دہائی دیتا ہے اور دوسری طرف فلسطین میں بہنے والے معصوم خون پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔
نیٹو کے رکن ممالک اور اسرائیل کا یہ اتحاد درحقیقت بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔ جنیوا کنونشن، اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر،اور دیگر عالمی معاہدے شہریوں پر حملوں کو ممنوع قرار دیتے ہیں، مگر نیٹو کی حمایت یافتہ اسرائیلی جارحیت تمام قوانین کو روندتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہے۔ اس کے باوجود عالمی ادارے بے بس نظر آ رہے ہیں، کیوں کہ نیٹو اور اس کے اتحادی عالمی سیاست اور میڈیا پر اپنا تسلط قائم کیے ہوئے ہیں، اور کسی بھی مخالفت کو دبا دیتے ہیں۔
یہ انتہائی افسوسناک امر ہے کہ نیٹو اور اس کے رکن ممالک انسانی حقوق کے چیمپئن بننے کے دعوے دار ہیں، مگر جب مظلوم فلسطینیوں پر بم برسائے جا رہے ہیں، جب معصوم بچوں کی لاشیں ملبے سے نکالی جا رہی ہیں، جب حاملہ خواتین پر بم گرائے جا رہے ہیں، تو یہ عالمی طاقتیں خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہیں۔ یہ منافقت اور دوہرا معیار عالمی برادری کے ضمیر پر ایک بدنما داغ ہے۔ اگر نیٹو واقعی انسانی حقوق اور عالمی امن کا پاسدار ہوتا، تو اسے چاہیے تھا کہ وہ اسرائیل پر پابندیاں عائد کرتا، جنگ بندی کے لیے دباؤ ڈالتااور فلسطینی عوام کو انصاف فراہم کرنے میں مدد دیتا، مگر ایسا کچھ نہیں کیا جا رہا۔
نیٹو کی غزہ میں جاری مظالم پر خاموشی اور اسرائیل کو دی جانے والی عملی حمایت نہ صرف غیرانسانی ہے بلکہ عالمی امن کے لیے بھی خطرہ ہے۔ اگر بین الاقوامی برادری نے نیٹو اور اس کے اتحادیوں کو اس دوہرے معیار پر بے نقاب نہ کیا، تو دنیا مزید خوں ریزی اور جنگوں کی لپیٹ میں آ جائے گی۔ فلسطین کے عوام کو انصاف فراہم کرنے کی ذمے داری صرف قوم مسلم تک محدود نہیں بلکہ پوری انسانیت کی ذمہ داری ہے۔ نیٹو کو اپنے جرائم پر جواب دہ ہونا چاہیے اور عالمی برادری کو اس کے خلاف سخت اقدامات اٹھانے چاہئیں تاکہ مزید بے گناہوں کا خون بہنے سے روکا جا سکے۔
برطانیہ کی منافقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک طرف وہ نیٹو کے ذریعے اسرائیلی جارحیت کی حمایت کر رہا ہے، جبکہ دوسری طرف رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں شاہی محل میں افطار کا اہتمام کر کے مسلمانوں کی ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ منافقانہ طرزِ عمل نہ صرف برطانیہ کی تاریخ سے مطابقت رکھتا ہے بلکہ اس کے استعماری عزائم کی بھی عکاسی کرتا ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ برطانیہ نے ایسی دوغلی پالیسی اپنائی ہو۔ تاریخ گواہ ہے کہ برطانوی حکومت ہمیشہ اپنے سیاسی اور معاشی مفادات کو مقدم رکھتی آئی ہے، چاہے اس کے لیے کسی بھی قوم کے خون سے ہاتھ رنگنے پڑیں۔ آج فلسطین میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس کی جڑیں برطانوی پالیسیوں میں پیوست ہیں، اور ونزر قلعے میں ہونے والی افطار محض ایک نمائشی اقدام ہے جو دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔
مغربی طاقتوں کا دوہرا معیار اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ طاقتور ہمیشہ “حق” کی نئی تعریف لکھنے کی کوشش کرتے ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اخلاقی اصول، عدل، اور انسانیت کسی قوم یا طاقت کی جاگیر نہیں، بلکہ یہ آفاقی سچائیاں ہیں جو کسی بھی تمدن کی اصل بنیاد ہوتی ہیں۔ فلسطین کے باسی نہ صرف ایک مظلوم قوم کی نمائندگی کر رہے ہیں بلکہ وہ انسانی عظمت، آزادی کی تمنا، اور حق کے فلسفے کے حقیقی علمبردار ہیں۔ نسل کشی، استعماری بالادستی اور اخلاقی منافقت کے بیچ، فلسطینی عوام کی دین حق پر استقامت پوری امت مسلمہ کے لیےقابل رشک ہے۔ تاریخ کے صفحات شاہد ہیں کہ ظلم زیادہ دیر تک باقی نہیں رہ سکتا، اور ہر جبر کے خلاف ایک مزاحمت جنم لیتی ہے، جو بالآخر ایک نئے دور کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔
عالم ربّانی حضرت شیخ اسید الحق محمد عاصم قادری رحمَۃ اللہ عَلَیہ کےآج سے تقریبا ٢٠ برس قبل “نالہ درد” کے عنوان سے نظم کے یہ اشعار فلسطینی عوام پر ہو رہے عالمی جبر کو دیکھتے ہوئے آج بھی اتنے ہی تازہ ہیں۔
مجھ کو آتا ہے فلسطین کے بچوں کا خیال
ان کے سینے میں اترتے ہوئے نیزوں کا خیال
نوجوان بیٹوں کو روتی ہوئی ماؤں کا خیال
خون سے بھیگی ہوئی ان کی رداؤں کا خیال
غرب اردن کے شہیدوں کاخیال آتا ہے
کبھی غزہ کے یتیموں کا خیال آتا ہے
ان کی مایوس نگاہوں کا خیال آتا ہے
گڑیہ کرتی ہوئی آنکھوں کا خیال آتا ہے
پھر بھی احباب یہ کہتے ہیں قصیدہ لکھوں
عید کا دن ہے کوئی شوخ سا نغمہ لکھوں
کوئی نغمہ نہیں لکھ پاؤ ں گا یزداں کی قسم
قدس میں بہتے ہوئے خون شہیداں کی قسم
’’جوئے خوں می چکدازحسرت دیرینہ ما
می تپد نالہ بہ نشتر کدہ سینہ ما‘‘