عالمی انصاف یا سیاسی دباؤ؟ امریکہ کا آئی سی سی ججوں پر حملہ

امریکہ نے عالمی فوجداری عدالت کے چار ججوں پر اسرائیل اور امریکی فوج کے خلاف کارروائیوں کے باعث سفری پابندیاں اور اثاثے منجمد کرنے کا اعلان کیا، جسے انسانی حقوق کے ماہرین نے تنقید کا نشانہ بنایا۔
امریکہ نے عالمی فوجداری عدالت (ICC) کے چار ججوں کے خلاف پابندیاں عائد کر دی ہیں جو اسرائیلی وزیر اعظم بنجامین نیتن یاہو کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ جاری کرنے اور امریکی فوجیوں پر ممکنہ جنگی جرائم کی تحقیقات کے فیصلوں میں شامل تھے۔ذرائع کے مطابق، یہ قدم جمعرات کے روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی جانب سے اُٹھایا گیا۔ جن ججوں کو نشانہ بنایا گیا ہے، ان میں سلووینیا کی بیٹی ہولر اور بینن کی رین الابینی-گانسو نمایاں ہیں، جنھوں نے نیتن یاہو کے خلاف عدالتی کارروائیوں میں کردار ادا کیا۔ پیرو سے تعلق رکھنے والی لوث دیل کارمن ایبانیث کارنتھا اور یوگنڈا کی وسولومی بالونگی بوسا بھی اُن کارروائیوں کا حصہ تھیں جن کے تحت افغانستان میں امریکی فوجی مداخلت کی جانچ پڑتال کی اجازت دی گئی۔
امریکی حکومت کے اس فیصلے کے تحت نہ صرف ان ججوں پر امریکہ میں داخلے کی پابندی عائد کی گئی ہے بلکہ ان کے امریکہ میں موجود ممکنہ مالی اثاثے بھی منجمد کر دیے گئے ہیں۔امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے عدالت پر سیاسی جانبداری کا الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ ان ججوں نے امریکہ اور اس کے اتحادی اسرائیل کو نشانہ بنایا، جسے وہ غیرقانونی اقدام قرار دیتے ہیں۔ تاہم، انسانی حقوق کے اداروں اور عالمی قانون کے ماہرین نے امریکہ کی اس کارروائی کو عالمی انصاف کے اصولوں پر حملہ قرار دیا ہے۔عالمی فوجداری عدالت کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ اپنے ججوں اور عملے کی مکمل حمایت جاری رکھے گی اور قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے کے لیے اپنے کام کو جاری رکھے گی۔