روس پر ٹرمپ کا دباؤ: بھارت اور دنیا کے لیے بڑھتی مہنگائی کا خطرہ

ٹرمپ کے روس مخالف اقدامات سے خام تیل مہنگا ہونے کا خدشہ ہے، جس کا براہِ راست اثر بھارت میں ایندھن و روزمرہ اشیاء کی قیمتوں پر پڑ سکتا ہے۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ کے حوالے سے روس کے خلاف سخت اقدامات شروع کر دیے ہیں۔ انھوں نے حال ہی میں روس کے قریب دو ایٹمی آبدوزیں تعینات کی ہیں، جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ اسی دوران انہوں نے بھارت پر بھی بھاری ٹیکس اور جرمانے عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت روس سے خام تیل اور دفاعی سازوسامان خرید رہا ہے، جبکہ ٹرمپ چاہتے ہیں کہ بھارت روس سے تجارت بند کرے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ٹرمپ روس پر مزید اقتصادی پابندیاں عائد کرتے ہیں تو اس کے اثرات عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں پر پڑ سکتے ہیں۔ قیمتوں میں ممکنہ اضافہ تیل کو 120 ڈالر فی بیرل تک لے جا سکتا ہے۔ ایکسپرٹس کے مطابق اگر روس سے تیل کی فراہمی میں رکاوٹ آتی ہے تو اس کے عالمی سطح پر طویل مدتی اثرات ہوں گے۔
بھارت کے لیے صورتحال پیچیدہ ہو سکتی ہے کیونکہ وہ اپنی توانائی کی ضروریات کا ایک بڑا حصہ روسی تیل سے پورا کرتا ہے۔ اگر قیمتیں بڑھتی ہیں تو بھارت کو مہنگی درآمدات کا سامنا ہوگا، جس کا بوجھ عام صارفین تک پہنچے گا۔ اگر بھارت پابندیوں کے باوجود روس سے تیل خریدتا رہا تو اسے امریکی جرمانے اور بھاری ٹیکسوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔اس صورتحال کا اثر صرف تیل تک محدود نہیں رہے گا۔ پیٹرول، ڈیزل اور ایل پی جی کی قیمتوں میں فوری اضافہ ہو سکتا ہے۔ چونکہ ٹرانسپورٹ مہنگی ہو جائے گی، اس لیے سبزیاں، پھل، دودھ اور دیگر روزمرہ اشیائے ضروریہ بھی متاثر ہوں گی۔ صنعتی شعبے جیسے پلاسٹک، کیمیکل، سیمنٹ، اسٹیل اور ٹیکسٹائل کی پیداواری لاگت بڑھے گی، جس سے تعمیرات، الیکٹرانکس اور عام استعمال کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔ پبلک ٹرانسپورٹ اور ای کامرس سروسز بھی مہنگی ہو سکتی ہیں۔عالمی سطح پر پہلے ہی خام تیل کی پیداوار مشکلات کا شکار ہے، اور نئی پابندیاں قیمتوں کو مزید اوپر لے جا سکتی ہیں۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ تیل کی قیمتوں میں یہ تیزی کم از کم 2026 تک برقرار رہ سکتی ہے۔