انتخابی عمل پر سوال یا سیاست؟

راہل گاندھی نے ووٹ چوری کا الزام لگایا، الیکشن کمیشن نے مسترد کیا۔ ایس آئی آر پر تنازعہ بڑھا،اپوزیشن متحد، عوامی شبہات برقرار۔
یہ معاملہ حالیہ دنوں میں بھارت کی سیاست میں ایک اہم بحث بن گیا ہے۔ کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے پریس کانفرنس میں الزام لگایا کہ الیکشن کمیشن حکمران جماعت بی جے پی کے ساتھ ملی بھگت کر کے “ووٹ چوری” میں شامل ہے۔ الیکشن کمیشن نے ان الزامات کو مسترد کر دیا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ عوام کا بھروسہ الیکشن سسٹم پر کمزور ہو رہا ہے یا یہ سب محض سیاسی حکمتِ عملی ہے۔راہل گاندھی بہار میں آر جے ڈی لیڈر تیجسوی یادو کے ساتھ “ووٹر ادھیکار یاترا” کے ذریعے اس مسئلے کو عوامی سطح پر اٹھا رہے ہیں، جب کہ بی جے پی اسے اپوزیشن کی مایوسی قرار دے رہی ہے۔ اسی دوران الیکشن کمیشن نے بھی وضاحت پیش کی لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ کمیشن کی وضاحت میں بھی کئی سوالات باقی رہ گئے ہیں۔
اصل تنازعہ اسپیشل انٹینسیو ریویژن (SIR) کے گرد ہے، جس کے ذریعے ووٹر لسٹ کی جانچ ہو رہی ہے۔ اپوزیشن کا الزام ہے کہ اس عمل کے ذریعے نئے ووٹروں کو جوڑا جا رہا ہے اور مستحق لوگوں کے نام کاٹے جا رہے ہیں، جبکہ الیکشن کمیشن کا مؤقف ہے کہ یہ صرف ووٹر لسٹ کی درستگی کے لیے ہے۔ سابق الیکشن کمشنر اشوک لواسا کا کہنا ہے کہ طریقہ کار کو بہت پیچیدہ بنا دیا گیا ہے اور عوام کو مناسب وقت نہیں دیا گیا، اس سے شبہات بڑھ رہے ہیں۔ماضی میں بھی انتخابات اور ووٹنگ مشینوں پر سوال اٹھے ہیں۔ 2009 میں بی جے پی نے بھی ای وی ایم پر اعتراض کیا تھا، اور 2019 میں کانگریس نے ضابطہ اخلاق پر عمل نہ ہونے کی شکایت کی تھی۔ مگر اس بار معاملہ ووٹر لسٹ کا ہے، جو عام شہری کو براہِ راست متاثر کرتا ہے۔
راہل گاندھی کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن صرف ان سے حلف نامہ مانگ رہا ہے جبکہ بی جے پی رہنماؤں سے ایسا مطالبہ نہیں کیا گیا۔ چیف الیکشن کمشنر کا کہنا ہے کہ اگر الزام لگانے والا متعلقہ حلقے کا ووٹر نہیں ہے تو اس کے لیے حلف نامہ لازمی ہے۔سپریم کورٹ نے بھی سوال اٹھایا کہ جب اتنے اعتراضات ہیں تو باضابطہ شکایتیں کیوں کم موصول ہو رہی ہیں۔ صحافیہ ریتیکا چوپڑا کے مطابق سیاسی جماعتیں اکثر عوامی سطح پر شور مچاتی ہیں لیکن باضابطہ ثبوت جمع نہیں کراتیں، اس لیے شکایتیں کم دکھائی دیتی ہیں۔اہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ معاملہ اپوزیشن کو متحد کر سکتا ہے؟ فی الحال کانگریس، آر جے ڈی، ترنمول اور سماج وادی پارٹی سب “ووٹ چوری” کے بیانیے پر ایک ساتھ نظر آ رہے ہیں۔ لیکن چونکہ مختلف ریاستوں میں یہ پارٹیاں ایک دوسرے کی حریف بھی ہیں، اس لیے مکمل اتحاد آسان نہیں ہوگا۔اشوک لواسا کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کو ایک ایسا نظام وضع کرنا چاہیے جو عوام کے لیے سہولت پیدا کرے، ورنہ شبہات بڑھتے رہیں گے۔ آنے والے بہار انتخابات میں یہ معاملہ بڑا سیاسی موضوع بننے کا امکان ہے کیونکہ ووٹر لسٹ سے جڑے مسائل براہِ راست عوام کے تجربے سے جڑے ہیں