سیاسی بصیرت

اردو ہندوستان کی متنوع ثقافت اور مشترکہ تہذیب کا معمار

اسے کسی  قوم یا مذہب تک محدود کرنا متنوع  ثقافت اور مشترکہ تہذیب سے ناواقفیت کا نتیجہ

منصورالحق سعدی،علی گڑھ

کیوں مجھ کو بناتے ہو تعصب کا نشانہ
میں نے تو کبھی خود کو مسلماں نہیں مانا
دیکھا تھا کبھی میں نے بھی خوشیوں کا زمانہ
اپنے ہی وطن میں ہوں مگر آج اکیلی
اردو ہے مرا نام میں خسروؔ کی پہیلی

ویسے تو لوگ زبان کا استعمال اپنے حالات، جذبات وغیرہ کا اظہار  کرنے کے لئے کرتے ہیں مگر  اقبال اشعر نے ان خوبصورت اشعار کے ذریعے اردو زبان کا درد بیان کرنے کا فریضہ  کامیابی کے ساتھ انجام دیا ہے۔اردو زبان ہندوستان کی تہذیب و ثقافت کی نمائندہ زبانوں میں سے ایک ہے۔ یہ زبان نہ صرف ہندوستان  کی تاریخ میں گہری جڑیں رکھتی ہے بلکہ آج بھی مختلف طبقات میں مقبول ہے۔ اردو زبان کی اہمیت صرف ایک بولی تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک مکمل تہذیب، ادب اور ثقافت ہے۔

تشکیلی اعتبارسےاردو زبان کا آغاز مختلف زبانوں کے میل جول سے ہوا۔ یہ بنیادی طور پر فارسی، عربی اور مقامی زبانوں کے امتزاج سے وجود میں آئی۔ غالب، میر، اقبال ،منشی پریم چند، پنڈت برج نرائن چکبست ،فیض احمد فیض،رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری وغیرہ جیسے بڑے شاعروں  اورادیبوں نے اردو کو ایک عظیم ادبی زبان کے طور پر پروان چڑھایا۔

موجودہ دور میں اردو کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے، مگر اس کے باوجود یہ زبان اپنی مٹھاس اور اثر انگیزی کی وجہ سے زندہ ہے۔ ہندوستان میں اردو اخبارات، رسائل اور تعلیمی ادارے اردو کے فروغ میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ فلمی صنعت اور ٹی وی سیریلز میں بھی اردو کا استعمال عام ہے، جو اس کی مقبولیت کی نشاندہی کرتا ہے۔

اردو -ادب، شاعری اور نثر کی دنیا میں اپنی ایک منفرد پہچان رکھتی ہے۔ یہ زبان محبت، تصوّف ، اور انسانیت کا درس دیتی ہے۔ اردو شاعری، غزل، اور کہانیوں نے دنیا بھر میں اپنی چھاپ چھوڑی ہے۔ ہندوستان کے مختلف ریاستوں میں اردو مشاعرے منعقد ہوتے ہیں جہاں اس زبان کی خوبصورتی اور اثر انگیزی کو سراہا جاتا ہے۔

وسیع سطح پر، جامعہ ملیہ اسلامیہ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، ہندوستان کے ہر حصے میں قائم مختلف مدارس جیسے اداروں نے اردو زبان کو فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ڈیجیٹل میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے بھی اردو زبان کے فروغ میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ہندوستان ایک متنوع ثقافتوں اور زبانوں کا گہوارہ ہے، جہاں مختلف زبانیں آپس میں گھل مل کر ایک انوکھی لسانی ہم آہنگی پیدا کرتی ہیں۔ خاص طور پر ہندی اور اردو، جو تاریخی اور ثقافتی لحاظ سے ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں، روزمرہ کی گفتگو میں ایک دوسرے کے الفاظ کو اپناتی آئی ہیں۔ آج کے ہندوستان میں، جہاں ہندی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے، وہاں عام بول چال میں بے شمار اردو الفاظ شامل ہو چکے ہیں جنہیں عام لوگ بلا جھجک استعمال کرتے ہیں، چاہے انہیں ان الفاظ کی اصل کا علم ہو یا نہ ہو۔

ہندی اور اردو بنیادی طور پر ایک ہی زبان کے دو مختلف رسم الخط اور اثرات کی شکلیں ہیں۔ جہاں ہندی سنسکرت سے زیادہ متاثر ہے، وہیں اردو فارسی، عربی اور ترکی کے اثرات رکھتی ہے۔ مگر عام بول چال میں ان دونوں زبانوں کی حدیں دھندلا جاتی ہیں، اور ایک عام ہندی بولنے والا شخص بھی انجانے میں کئی اردو الفاظ استعمال کر رہا ہوتا ہے۔

روزمرہ کی گفتگو میں بولی جانے والی عام ہندی میں اردو کے بے شمار الفاظ شامل ہیں، جو مختلف مواقع پر استعمال کیے جاتے ہیں۔ چند مثالوں پر غور کرتے ہیں:

  • تعلیم اور دفترات میں اردو الفاظ

“امتحان” (پریچھا کی جگہ)

“نتیجہ” (پرینام کی جگہ)

“درخواست” (آویدن کی جگہ)

“فیصلہ” (نرنے کی جگہ)

“ہدایت” (نردیش کی جگہ)

  • عدالت اور قانون میں

“گواہ” (ساکشی کی جگہ)

“ثبوت” (پرامان کی جگہ)

“مجرم” (اپرادھی کی جگہ)

“ضمانت” (جمانت کی جگہ)

“حکم” (آدیش کی جگہ)

(عدالت، قانون وغیرہ سے متعلق ایسے سیکڑوں الفاظ ہیں جو اردویافارسی سے لیے ہوئے ہیں جن کا بدل ہندی زبان میں نہیں ہے)

  • گلی محلے اور روزمرہ کی گفتگو میں

“بازار” (منڈی کی جگہ)

“سڑک” (مارگ کی جگہ)

“کوشش” (پریاس کی جگہ)

“خطرہ” (جوکھم کی جگہ)

“برتن ” (پاتر  کی جگہ)

“بارات”(وریاترا کی جگہ)

“جلوس”( شوبھا یاترا کی جگہ)

  • محبت، جذبات اور تعلقات میں

“محبت” (پریم کی جگہ)

“دوستی” (مترتا کی جگہ)

“دشمنی” (شترتا کی جگہ)

“احساس” (بھاوناؤں کی جگہ)

“یقین” (وشواس کی جگہ)

مغلیہ دور حکومت اور اس کے بعد کے ادوار میں اردو عام بول چال کی زبان رہی، جس نے ہندی پر گہرا اثر ڈالا۔ بالی ووڈ میں اردو کے الفاظ اور مکالمے بہت عام ہیں، جس کی وجہ سے عوام میں یہ الفاظ رائج ہو گئے ہیں۔ مثال کے طور پر، “محبت”، “قسمت”، “داستان”، “بدلہ”، “آرزو” جیسے الفاظ فلمی مکالموں میں کثرت سے سننے کو ملتے ہیں۔ ہندوستان کے قانونی اور انتظامی نظام میں بھی بہت سے اردو الفاظ شامل ہیں، جو عوام میں زبان کے طور پر رائج ہو چکے ہیں۔ ہندی بولنے والے افراد عام طور پر اردو الفاظ کو نرم، شائستہ اور خوبصورت سمجھتے ہیں، اس لیے وہ اپنی گفتگو میں ان کا استعمال بے ساختہ کرتے ہیں۔

اردو صرف ایک زبان نہیں بلکہ ایک مشترکہ تہذیب کا ترجمان ہے۔ یہ ایک ایسی زبان ہے جو صرف کسی ایک قوم یا مذہب کی میراث نہیں بلکہ تمام اقوام اور مذہبی طبقات کے لوگوں نے اسے برابر کی عزت اور مقبولیت بخشی ہے۔ اردو کی شاعری، ادب، تحقیق اور فکری سفر ہم سب کے لیے مشترکہ ورثہ ہے جو ہمیشہ سے ہندوستان کی تہذیب اور اس کے علمی سفر کا حصہ رہا ہے۔اردو کی تاریخ کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ اس زبان نے کسی بھی ایک مذہب یا فرقے سے خود کو مخصوص نہیں رکھا۔ اس زبان کو مسلم، ہندو، سکھ اور عیسائی تمام طبقات کےافرادنےترجیحاتی طور پراسےاپنی علمی اور ادبی شناخت  کے لیےذریعہ اظہار بنایا۔ میر تقی میر، غالب، اقبال، جوش ملیح آبادی، پریم چند، رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری اور کرشن چندروغیرہ جیسے بزرگ ادیبوں اور شعرا نے اسے آگے بڑھانے اورپروان چڑھانے میں خصوصی کردار انجام دیا۔اوراپنے کرداروعمل سے یہ ثابت کیا کہ اردو کسی ایک طبقے کی زبان نہیں بلکہ ایک مشترکہ تہذیبی زبان ہے۔

باجود اس کے کچھ ذعفرانی ذہنیت کے افراد آج بھی اردو کو صرف ایک مذہبی زبان سے جوڑ کر دیکھتے ہیں جوان کی  تنگ نظری اور غیر حقیقی سوچ ہے۔ اردو ایک ایسی زبان ہے جو محبت، بھائی چارے اور مشترکہ تہذیب کا اظہار کرتی ہے۔ یہ صرف مسلمانوں کی نہیں بلکہ ہر اس شخص کی زبان ہے جو اسے سمجھنے اور بولنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جو لوگ اردو کو کسی ایک طبقے سے جوڑ کر دیکھتے ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ ہندوستانی تہذیب میں اردو کے کردار پر غور کریں اور اس واقعی حقیقت کو ملحوظ خاطر رکھیں کہ اردو نے ہندوستانی تہذیب کے فروغ میں  کس قدر مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ یہ زبان صرف ادبی طور پر نہیں بلکہ سماجی اور سیاسی طور پر بھی ایک قیمتی ورثہ رہی ہے۔ اردو نہ صرف ہندوستان کی آزادی کی تحریک کا حصہ رہی بلکہ آج بھی یہ مختلف شہروں اور علاقوں میں ایک جوڑ بننے کا کردار ادا کر رہی ہے۔ اردو فلم، ریڈیو، میڈیا اور ادبی محافل میں ایک اہم مقام رکھتی ہے جو ہندوستانی تہذیب کا ایک ناقابل فراموش حصہ ہے۔

ملک کی سالمیت کے لیے ضروری ہے کہ ہر زبان اور ہر تہذیب کو برابر کا مقام دیا جائے۔ اردو ایک ایسی زبان ہے جو ملک کے مختلف طبقات کو ایک دوسرے سے جوڑنے کا کام کرتی ہے۔ یہ ایک ایسی رشتے کی ڈور ہے جو ہندوستان کے مختلف مقامات اور لوگوں کو آپس میں ملاتی ہے۔ جو لوگ اسے صرف ایک قوم یا مذہب تک محدود کرنا چاہتے ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ اس مشترکہ ورثے کو عزت دیں اور ملک کی وحدت کو برقرار رکھنے میں اپنا کردار ادا کریں۔

ٍ        آخر میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اردو صرف ایک زبان نہیں بلکہ ایک تہذیبی پہچان ہے جو سب کا مشترکہ ورثہ ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اسے نفرت اور تفریق کی بھینٹ چڑھانے کے بجائے اسے محبت اور بھائی چارے کا ذریعہ بنائیں۔ اگرچہ ہندی اور اردو کو الگ الگ زبانوں کے طور پر دیکھا جاتا ہے، لیکن حقیقت میں دونوں زبانیں ہندوستانی عوام کی مشترکہ ثقافت کا حصہ ہیں۔ اردو کے خوبصورت الفاظ ہندی زبان میں اتنے گھل مل گئے ہیں کہ عام بول چال میں ان کی شناخت کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ یہ امتزاج نہ صرف زبان کی ترقی کا ثبوت ہے بلکہ ہندوستان کی لسانی ہم آہنگی اور بھائی چارے کی علامت بھی ہے۔ہندوستان کے عام لوگ چاہے ہندی بولنے والے ہوں یا کسی اور زبان کے، وہ اردو کے الفاظ کو فطری طور پر اپنا چکے ہیں، جو اس بات کی علامت ہے کہ یہ زبان  دیواریں کھڑی کرنے کے بجائے انسانوں کو جوڑے رکھنے کا فریضہ انجام دے رہی ہے۔

 

admin@alnoortimes.in

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

سیاسی بصیرت

ٹی ایم سی رائے گنج لوک سبھا الیکشن کیوں نہیں جیت پاتی؟

تحریر: محمد شہباز عالم مصباحی رائے گنج لوک سبھا حلقہ مغربی بنگال کی ایک اہم نشست ہے جس کی سیاسی
سیاسی بصیرت

مغربی بنگال میں کیا کوئی مسلمان وزیر اعلیٰ بن سکتا ہے؟

محمد شہباز عالم مصباحی سیتل کوچی کالج، سیتل کوچی، کوچ بہار، مغربی بنگال مغربی بنگال، جو ہندوستان کی سیاست میں