آؤ دیکھیں کیسے دیکھا جاتا ہے عید کا چاند

ازقلم: (قاری) رئیس احمد خان
صدر شعبۂ حفظ و قراءت: دارالعلوم نورالحق، چرہ محمدپور، فیض آباد، ضلع: ایودھیا، یوپی..
رمضان المبارک رحمتوں اور برکتوں سے معمور ایک مقدس مہینہ ہے، جو مؤمن بندوں کے درمیان سے رخصت ہوتے ہوئے ان کے دلوں میں ایک گہرا نقش چھوڑ جاتا ہے۔ گویا یہ ایک ایسا مسافر ہے جو اپنی آمد کے ساتھ ہی قلوب کو نورانیت سے بھر دیتا ہے، اور جب رخصت ہونے لگتا ہے تو اس کی جدائی دلوں کو اداس کر دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے آخری ایام میں عبادت گزار بندے دل تھام کر اس کی ساعتوں کو سمیٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔
رمضان: تربیت، بندگی اور روحانی ترقی کا مہینہ
رمضان المبارک کے تین عشروں کی تقسیم ایک معنوی ترتیب رکھتی ہے۔ پہلا عشرہ رحمت، دوسرا مغفرت اور تیسرا دوزخ سے نجات کا ہوتا ہے۔ جیسے جیسے رمضان اپنی منزلیں طے کرتا ہے، عبادت گزار پہلے عشرے کی برکتوں سے سیراب ہو کر مغفرت کے عشرے میں داخل ہوتے ہیں، پھر جہنم سے آزادی کی سعادت کے متلاشی ہو جاتے ہیں۔
اعتکاف کا اہتمام، لیلۃ القدر کی جستجو، تلاوتِ قرآن میں اضافہ، اذکار و تسبیحات کی کثرت، تراویح میں خشوع و خضوع، اور راتوں کو قیام و سجدہ ریزی… یہ سب رمضان کی وہ روحانی بہاریں ہیں، جو اہلِ ایمان کے قلوب کو روشنی عطا کرتی ہیں۔ انہی لمحوں میں وہ آنسو بہائے جاتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے دربار میں قبولیت کا درجہ پاتے ہیں۔ یہی وہ بندے ہیں جو عید کے دن اللہ کے انعام کے مستحق قرار پاتے ہیں۔
چاند رات: خوشی کی نوید، عبادت کی یاد
رمضان کی جب آخری شام آتی ہے تو دلوں میں ایک عجیب سی کیفیت پیدا ہو ہوجاتی ہے… ایک طرف رمضان کے جانے کا ملال، تو دوسری طرف عید کے چاند کے دیدار کی تڑپ۔ چاند دیکھنے کی یہ روایت امت مسلمہ میں محض ایک فلکیاتی مشاہدہ نہیں، بلکہ ایک روحانی علامت ہے… یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عید کی نوید ہے، جو زمین سے لے کر آسمان تک خوشیوں کا پیغام پہنچاتی ہے۔
چاند دیکھنے کے لیے لوگ چھتوں پر، میدانوں میں، یا کھلی جگہوں پر جمع ہوجاتے ہیں، نگاہیں فلک پر مرکوز ہو جاتی ہیں، اور زبانوں پر بے ساختہ یہ دعا جاری ہوتی ہے:

(ترجمہ: اے اللہ! یہ چاند ہم پر برکت، ایمان، سلامتی، اسلام اور اس چیز کی توفیق کے ساتھ ظاہر فرما، جو تجھے محبوب اور پسند ہو۔ اے چاند! میرا اور تیرا رب اللہ ہی ہے)۔
جوں ہی چاند نظر آتا ہے، خوشی کی ایک لہر دوڑ جاتی ہے، مسجدوں میں اعلان ہونے لگتا ہے، مبارکبادیوں کا تبادلہ ہوتا ہے، اور ہر دل اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر شکر بجا لاتا ہے۔ شاعر نے اس منظر کو کچھ یوں بیان کیا ہے:
ہلالِ عید کیا دکھا، دکھا نہ دکھا
تمہیں نقاب الٹ دو، کہ ہماری عید ہو جائے
عیدالفطر: شکر، خوشی، اور سخاوت کا دن
عیدالفطر کا دن اہلِ ایمان کے لیے خوشی اور شادمانی کا دن ہوتا ہے، لیکن اس خوشی کی بنیاد تقویٰ، شکر اور انفاق پر ہوتی ہے۔ رمضان میں روزے رکھ کر نفس کو قابو میں رکھنے والے بندے اس دن اپنی تربیت کی کامیابی کا جشن مناتے ہیں۔ مگر یہ جشن غرور و تفاخر کا نہیں، بلکہ اللہ کی عظمت کے آگے جھکنے کا ہوتا ہے، اس کے شکر کا ہوتا ہے، اور مستحقین میں خوشیاں بانٹنے کا ہوتا ہے۔
اسی لیے عید سے پہلے صدقۂ فطر ادا کرنے کا حکم دیا گیا، تاکہ غریب اور نادار بھی اس خوشی میں شامل ہو سکیں۔ نمازِ عید ادا کرتے وقت دل میں شکر کا جذبہ ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں رمضان عطا کیا، ہمیں روزے رکھنے، قیام کرنے، اور نیکیوں میں سبقت لے جانے کی توفیق دی، اور اب ہمیں اس کا انعام عطا فرما رہا ہے۔
پردیسیوں کی عید: خوشی کے ساتھ جدائی کی چبھن
عید کا دن، اگرچہ خوشیوں کا دن ہوتا ہے، لیکن ان لوگوں کے لیے ایک الگ ہی کیفیت رکھتا ہے جو اپنوں سے دور ہوتے ہیں۔ وہ پردیسی جو روزگار یا کسی مجبوری کے تحت اپنے گھروں سے دور ہوتے ہیں، ان کے لیے عید ایک خوشی اور اداسی کا امتزاج بن جاتی ہے۔ جب وہ مسجد یا عید گاہ میں پہنچتے ہیں تو ایک طرف اللہ کی رحمت پر ان کے دل شاد ہوتے ہیں، لیکن دوسری طرف اپنوں کی یاد دل میں ایک خلش پیدا کر دیتی ہے۔
یاد آتے ہیں بہت گاؤں کے منظر عالم
میں تو پردیسی ہوں، کیا عید کا جلوہ دیکھوں
یہ کیفیت دراصل ہمیں یہ درس دیتی ہے کہ ہمیں اپنے آس پاس ایسے افراد کا خاص خیال رکھنا چاہیے جو عید کے دن تنہائی محسوس کر رہے ہوں، تاکہ ان کی خوشیوں میں اضافہ ہو۔
عید کی حقیقی خوشی: اللہ کی رضا
عیدالفطر صرف کپڑے پہننے، لذیذ پکوان کھانے اور سیر و تفریح کرنے کا نام نہیں، بلکہ یہ اللہ عزوجل کے قرب کا دن ہے، اس کے انعام کا دن ہے۔ جو لوگ رمضان میں تقویٰ، صبر اور نیکی کی روش اختیار کرتے ہیں، وہی عید کے حقیقی لطف سے بہرہ ور ہوتے ہیں۔ یہی وہ بندے ہیں جو عید کی رات کو “لیلۃ الجائزہ” (انعام کی رات) کے طور پر گزارتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہوتے ہیں اور اپنی عبادات کی قبولیت کی دعا کرتے ہیں۔
عید کا صحیح لطف تب ہی آ سکتا ہے جب ہم اپنی خوشیوں میں دوسروں کو بھی شریک کریں، غرباء و مساکین کو اپنی مسرتوں میں شامل کریں، اور رشتہ داروں، پڑوسیوں، اور دوستوں سے محبت و شفقت کا برتاؤ کریں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں رمضان کی برکتوں سے حقیقی طور پر مستفید ہونے اور عیدالفطر کے دن اس کی رضا و انعام پانے والوں میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!